ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
گئے ہیں اپنے پیچھے خون کے نشان اور لاشوں کا اَنبار چھوڑا ہے۔ حکومت نے قبائلیوں کے ساتھ اَمن معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ اگر ہم اپنے کیے ہوئے معاہدے کا اِحترام نہیں کرتے تو پھر معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ فوج ایکشن سے پرہیز کرے اور جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ اُس کی معافی مانگے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اَسد دُرانی نے کہا ہے کہ اگر فوج کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اگر پچھلے چار پانچ سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے مختلف علاقوں میں کئی فوجی آپریشن کیے ہیں۔ یہ کارروائیاں چاہے بلوچستان میں ہوں یا قبائلی علاقے میں یا پھر اِسلام آباد میں، اپنے ہی لوگوں کے خلاف کی گئیں اور اُن آپریشنز میں ہم نے کافی لوگوں کو مارا۔ اُنہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تو آپریشن ضروری تھا لیکن کچھ معاملات میں تو شاید بغیر کارروائی کے گزارہ ہوبھی جاتا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ملک کی صورت ِ حال کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بطورِ حکومت یا فوج ملک میں ہم جہاں بھی جاتے ہیں پیچھے خون کے نشان اور لاشیں چھوڑ آتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات باعث ِپریشانی ہے کہ ہر آپریشن کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہم نے فتح حاصل کی ہے اور فوجیوں کو مبارک باد دی جاتی ہے۔ اَب تو وہ بے چارے سپاہی جو حکم کے تحت کارروائی کرتے ہیں اُنہوں نے بھی فتح کے نشان بنانا شروع کردیے ہیں۔ اِن باتوں کو مدنظر رکھیں تو یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ لوگ فوج کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فوج میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو اِس طرح کی سوچ رکھتے ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے کوئی سروے نہیں کیا ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہم فوج کے اندر ہوں یا باہر عام طور پر ہماری سوچ ایک دُوسرے سے مطابقت رکھتی ہے۔ کچھ اگر اِس کے حق میں ہوں گے تو کچھ کو اِختلاف بھی ہوگا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں بنیاد پرستی یا ملااِزم بہت بڑا جرم ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اِس مسئلے کو طریقہ سے حل کیا جاسکتا ہے لیکن اِس سے کوئی خوش نہیں ہوسکتا وہاں لوگوں کا خون بہایا جائے۔