ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
کہ اور لوگوں پر مصائب آسان ہوں کہ جب باعث ِوجودِ خلق اور مقبولِ ربِّ اکبر پیغمبر معصوم کا یہ حال ہے تو ہم ناچیز گنہگار وں، نالائقوں کی کیا ہستی ہے وغیرہ۔ اور اَولیاء کو مثل ِانبیاء کے کمالات حاصل نہیں ہوتے۔ نبوت کی اِبتداء ولایت کی اِنتہا سے بڑھ کر ہے، خوب سمجھ لو۔ اِس کے بعد) جبرئیل آئے اور کہا یارسول اللہ ۖ اُٹھیے، فرمایا کیا ہوا ہے؟ عرض کیا فاطمہ نے فرشتوں کو خروش (وجوش غم) میں ڈال دیا اُن کو تسلی و تسکین دیجیے۔ سرورِ عالم ۖ تشریف لائے اور صاحبزادی کو بیہوش دیکھا، اُن کے سر کو زمین سے اُٹھایا اور گود میں لیا۔ حضرت فاطمہ ہوش میں آکر اُٹھیں اور مثل نادم شخص کے سرمبارک سامنے کیا (باوجود اِس بات کے کہ کوئی اَمر خلاف ِ شرع نہ تھا بلکہ دُعاء عبادت تھی مگر اِس خیال سے کہ شاید کوئی بات بے صبری کی نہ ہوگئی ہو بوجہ شدت رنج و تنگی کے ندامت طاری ہوئی۔ سبحان اللہ !سب کچھ اطاعت کریں اور اپنے کو ناقابل اور نالائق سمجھیں۔ اللہ والوں کا یہی کام ہے اور حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پورا حق کوئی نبی اور کوئی ولی ادا نہیں کرسکتا، اُس کی بے شمار نعمتوں کا شکر کس سے ادا ہوسکتا ہے مگر بندہ کو حتی المقدور کسی وقت اطاعت و شکر سے غفلت روا نہیں، جب باوجود ہر وقت اطاعت کے باری عز شانہ' کا حق نہیں ادا ہوسکتا تو غفلت میں کس قدر ناشکری اور بے پروائی ہے۔ حضرت ۖ نے فرمایا اے فاطمہ !آیت ( نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْر مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ترجمہ : ہم نے تقسیم کی ہے اُن کے درمیان اُن کی روزی دُنیا کی زندگی میں اور ہم نے بلند مرتبہ بنایا اُن میں ایک کو ایک پر تاکہ بنالے ایک دُوسرے کو محکوم اور تیرے پروردگار کی رحمت اُن چیزوں سے بہتر ہے جو یہ جمع کرتے ہیں انتہٰی یعنی جنت بہتر ہے مسلمانوں کے لیے اِس ناپائدار دُنیا سے) پڑھتی رہ اور اللہ تعالیٰ کو تقسیم کرنے والا (رزق و دیگر نعمتوں کا) جانتی رہ تاکہ تجھ پر مشقتیں آسان ہوویں (کیونکہ جب انسان سمجھے گا کہ سب کچھ اللہ کے حکم و اِرادہ سے ہوتا ہے تو دل کو تسکین ہوگی اور رنج میں بہت کمی ہوگئی کہ خالق کے کاروبار میں ہمیں رنج کا کیا موقع ہے۔ نیز ہمارا کیا بس و قابو ہے پس رنج بیکار ہے۔ بیان تسکین رسول اللہ ۖ از تسلی خدیجہ : حضرت فاطمہ پہلے سے اِن اُمور سے واقف تھیں اورادنیٰ مسلمان ایسے احکام سے واقف ہے مگر شدت ِمصائب اور سخت مصیبت سے قلب پر رنج غالب ہوتا ہے جس سے ایسے اُمور کی حضوری جاتی رہتی ہے