ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
(٣٨) یاجوج ماجوج اور دَجال سے مراد مغربی اَقوام ہیں۔ (٣٨) یاجوج ماجوج اور دَجال قرب ِ قیامت کی دو الگ الگ نشانیاں ہیں۔ اَحادیث کی رُو سے دَجال ایک یہودی شخص ہوگا جو دائیں آنکھ سے کانا ہوگا۔ (٣٩) جہاد و قتال کے بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ (٣٩) جہاد و قتال ایک شرعی فریضہ ہے۔ (٤٠) کافروں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اَب باقی نہیں رہا اور اَب مفتوح کافروں سے جزیہ نہیں لیا جاسکتا۔ (٤٠) کفار کے خلاف جہاد کا حکم ہمیشہ کے لیے ہے اور مفتوح کفار (ذِمیوں) سے جزیہ (ٹیکس) لیا جاسکتا ہے۔ (٣٨) ''ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نبی ۖ نے قیامت کے قریب یاجوج ماجوج ہی کے خروج کو دَجال سے تعبیر کیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج ماجوج کی اَولاد یہ مغربی اَقوام، عظیم فریب پر مبنی فکر و فلسفہ کی علمبردار ہیں اور اِسی سبب سے نبی ۖ نے اُنہیں دجال (عظیم فریب کار) قرار دیا ہے۔ روایات میں دجال کی ایک صفت یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اُس کی ایک آنکھ خراب ہوگی۔ یہ بھی درحقیقت مغربی اَقوام کی انسان کے رُوحانی پہلو سے پہلوتہی اور صرف مادّی پہلو کی جانب جھکائو کی طرف اِشارہ ہے۔ اِسی طرح مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا بھی غالبًا مغربی اَقوام کے سیاسی عروج ہی کے لیے کنایہ ہے۔'' (ماہنامہ اشراق ص ٦١ جنوری ١٩٩٦ء ) (٣٩) '' اُنہیں (نبی ۖ اور آپ کے صحابہ کو) قتال کا جو حکم دیا گیا اُس کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اِتمامِ حجت سے ہے۔'' (میزان ص ٢٦٤ طبع اپریل ٢٠٠٢ئ) (٤٠) ''یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین ِ حق (کافروں) کے خلاف جنگ اور اُس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کرکے اُنہیں محکوم اور زیرِدست بناکر رکھنے کا حق اَب ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔'' (میزان ص ٢٧٠ طبع اپریل ٢٠٠٢ئ) ۔