ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
(٣٢) اگر میت کی اَولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو اُن کو والدین یا بیوی شوہر کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ (٣٢) میت کی اَولاد میں صرف بیٹیاں ہی ہوں تو اُن کو کل ترکے کا دو تہائی حصہ دیا جائے گا۔ (٣٣) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور اُن کا استعمال ممنوع نہیں۔ (٣٣) سور نجس العین ہے لہٰذا اُس کی کھال اور اجزائے بدن کا استعمال اور تجارت جمہور کے نزدیک حرام ہے۔ (٣٤) عورت کے لیے دوپٹہ پہننا شرعی حکم نہیں۔ (٣٤) عورت کے لیے دوپٹہ اور اَوڑھنی پہننے کا حکم قرآن کی سورة النور ٣١ سے ثابت ہے۔ (٣٢) (الف) ''اَولاد میں دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہی ہوں تو اُنہیں بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی دیا جائے گا۔'' (میزان حصّہ اوّل ص ٧٠ طبع مئی ١٩٨٥ئ) (ب) ''وہ سب (والدین اور زوجین کے حصّے) لازمًا پہلے دیے جائیں گے اور اُس کے بعد جو کچھ بچے گا صرف وہی اَولاد میں تقسیم ہوگا۔ لڑکے اگر تنہا ہوں تو اُنہیں بھی یہی ملے گا اور لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو اُن کے لیے بھی یہی قاعدہ ہوگا۔ اِسی طرح میت کی اَولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہی ہوں تو اُنہیں بھی اِس بچے ہوئے ترکے ہی کا دو تہائی یا آدھا دیا جائے گا، اُن کے حصّے پورے ترکے میں سے کسی حال میں اَدا نہ ہوں گے۔'' (میزان ص ١٦٨ طبع اپریل ٢٠٠٢ئ) (٣٣) (الف) ''اُن علاقوں میں جہاں سور کا گوشت بطورِ خوراک استعمال نہیں کیا جاتا وہاں اُس کی کھال اور دُوسرے جسمانی اَجزاء کو تجارت اور دُوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (ماہنامہ اشراق ص ٧٩ اکتوبر١٩٩٨ء ) ۔ (ب) ''یہ سب چیزیں (خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ) جس طرح کہ قرآن کی اِن آیات سے واضح ہے، صرف خورد و نوش کے لیے حرام ہیں۔ رہے اُن کے دُوسرے استعمالات تو وہ بالکل جائز ہیں۔ (میزان ص ٣٢٠ طبع دوم اپریل ٢٠٠٢ئ) (٣٤) ''دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے۔ اِس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اِس لحاظ سے پیش کرناکہ یہ شرعی حکم ہے، اِس کا کوئی جواز نہیں۔'' (ماہنامہ اشراق ص ٤٧ مئی ٢٠٠٢ئ) g