ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
(٢٩) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے۔ (٢٩) شراب نوشی کی شرعی سزا ہے جو اِجماع کی رُو سے ٨٠ کوڑے مقرر ہے۔ (٣٠) عورت کی گواہی حدود کے جرائم میں بھی معتبر ہے۔ (٣٠) حدود کے جرائم میں عورت کی شہادت مرد کی طرح نہیں بلکہ قرائن میں شامل ہے۔ (٣١) صرف عہد ِ نبوی ۖ کے عرب مشرکین اور یہودو نصارٰی مسلمانوں کے وَارث نہیں ہوسکتے۔ (٣١) کسی زمانہ کا کوئی کافر کسی مسلمان کا کبھی وَارث نہیں ہوسکتا۔ (٢٩) (الف) ''یہ بالکل قطعی ہے کہ حضور ۖ نے اگر شراب نوشی کے مجرموں کو پٹوادیا تو شارع کی حیثیت سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے پٹوایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی اُن کے لیے چالیس کوڑے اور اَسّی کوڑے کی یہ سزائیں اِسی حیثیت سے مقرر کی ہیں۔ چنانچہ ہم پورے اِطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں بلکہ محض تعزیر ہے جسے مسلمانوں کا نظم ِ اِجتماعی، اگر چاہے تو برقرار رَکھ سکتا ہے اور چاہے تو اپنے حالات کے لحاظ سے اُس میں تغیر و تبدل کرسکتا ہے۔'' (برہان ص ١٣٩ طبع چہارم جون ٢٠٠٦ئ)۔ (ب) ''یہ (شراب نوشی پر ٨٠ کوڑوں کی سزا) شریعت ہرگز نہیں ہوسکتی۔'' (برہان ص ١٣٨ طبع چہارم جون ٢٠٠٦ئ) (٣٠) حدود کے جرائم ہوں یا اُن کے علاوہ کسی جرم کی شہادت، ہمارے نزدیک یہ قاضی کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتا ہے اور کس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ اِس میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے۔'' (برہان ص ٢٧ طبع چہارم جون ٢٠٠٦ئ) (٣١) ''نبی ۖ نے اِسی (قرابت ِ نافعہ) کے پیش ِ نظر جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین اور یہود و نصارٰی کے بارے میں فرمایا : ''لَایَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَاالْکَافِرُ الْمُسْلِمَ ''۔ (بخاری رقم ٦٧٦٤) ''نہ مسلمان اُن میں سے کسی کافر کے وَارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔'' یعنی اَتمامِ حجت کے بعد جب یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دُشمن بناکر سامنے آگئے ہیں تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی اِن کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ چنانچہ یہ اَب آپ میں ایک دُوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔'' (میزان ص ٧١ ١ طبع دوم اپریل ٢٠٠٢ ئ)