ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
ہی لوگوں کی لاشوں کے اَنبار سے گزریں گے تو پھر کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ اگر ہم نے غلطیاں کی ہیں اور ملٹری ایکشن کرکے غیروں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے ہیں تو ہمیں فوری طور پر یہ بند کرکے قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ فوج اِس مقصد کے لیے نہیں تھی جس کے لیے اُسے استعمال کیا جارہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مسائل کا حل حکمت اور تدبر سے ہوتا ہے، فوجی کشی سے نہیں اور جن لوگوں نے ایسا کیا وہی حالات کے ذمّہ دار ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ لال مسجد پر آپریشن کرنے والوں کو مبارک باد دینے سے لوگوں کو مزید چِڑادیا ہے۔ ٭ سندھ کے سابق گورنر ووزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل معین الدین حیدر نے فوج پر حملوں کے رُجحان کو ملکی بقاء و سلامتی کیلیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ نام نہاد ' 'اِنتہا پسند'' یہ سمجھتے ہیں کہ فوج اُن کے خلاف فریق بن چکی ہے۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کیونکہ مسلح اَفواج کا اِدارہ قومی اِدارہ ہے اور اِس پر حرف نہیں آنا چاہیے۔ فوج کو حکومتی مقاصد کے لیے اِستعمال نہیں کیاجانا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے 12مئی کو کراچی میں بھی ایسے واقعات ہوئے کہ سٹیٹ کے اِداروں کا جانبدارانہ کردار سامنے آیا جس سے عوام میں ردّعمل پیدا ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کے باعث آج حکومت اور عوام اور عوام اور فوج کے درمیان اعتماد متاثر ہوا ہے۔ معین الدین حیدر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ساری صورت ِ حال کا حل ملک کے اَندر ایک نمائندہ اور مضبوط حکومت کا قیام ہے جو عوامی اُمنگوں کے تابع جرأتمندانہ فیصلے کرنے، عوام کی رائے آزاد اور شفاف انتخابات کی صورت میں ہی سامنے آسکتی ہے۔ اُنہوں نے ایک سوال پر کہا کہ فوج قوم کا اَثاثہ ہے، اِس کا تشخص مجروح نہیں ہونا چاہیے ۔ ٭ بلوچستان کے سابق گورنر اور کورکمانڈر ریٹائرڈ جنرل عبد القادر بلوچ نے کہا کہ موجودہ صورت ِ حال صرف اور صرف اِس لیے پیدا ہوئی کہ فوج کو سول معاملات میں اُلجھادیا گیا۔ اِس اَمر کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ آخر کیوں لوگ ہتھیار اُٹھانے اور حملے کرنے پر مجبور ہوئے؟ کیا یہ ہماری پالیسیوں کی ناکامی نہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ آج کے حکمران اِس