ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
گھمبیر اور سنگین صورت ِ حال کو کنٹرول کرسکیں گے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر عام سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت قائم کرکے حکومتی معاملات اُس کے سپرد کیے جائیں اور فوج کو واپس بیرکوں میں بھجوانا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ سول معاملات کنٹرول کرنا سویلین اِداروں کا کام ہے فوج کا نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ فوج اور قوم کا اتحاد ہی ملک کے اِستحکام کی ضمانت ہے۔ آخر کیوں فوج اور قوم کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے؟ اُنہوں نے کہا کہ آج کی صورت ِ حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ کسی کی ضد اور اَنا کو قومی مفادات پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ ٭ ریٹائرڈ جنرل راحت لطیف نے کہا کہ بدقسمتی سے ہندوستان کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان کے اَندر فوج اور قوم آپس میں مقابلے میں آجائیں اور آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں جس فوج کو لوگ دیکھ کر سلامتی دیتے تھے آج اُس پر حملے ہورہے ہیں۔ یہ کیونکر ہورہا ہے؟ کس کے باعث ہورہا ہے؟ یہ ڈھکا چھپا نہیں۔ عوام کا اگر اختلاف ہے تو اُسے اختلاف ہی سمجھنا چاہیے۔ اِن پر قوت کا استعمال ہوگا تو پھر وہ بھی ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ رُجحان خود حکومت اور حکمرانوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِن کی ناقص پالیسیوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ خدا را پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور فوج کو فوج ہی رہنے دیں۔ ٭ ریٹائرڈ جنرل سعید الزمان جنجوعہ نے کہا کہ لال مسجد پر ایکشن کے بعد ری ایکشن تو متوقع تھا۔ آخر یہ کس کی پالیسی ہے کہ قومی فوج کو قوم کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اِسلام ہماری زندگیوں میں رچا بسا ہوا ہے لہٰذا آپ اپنے مفادات کے لیے ایسی صورت ِ حال پیدا نہ کریں کہ قوم ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوجائے۔ اُنہوں نے کہا کہ فوج کا استعمال پولیس کے ذر یعے لیا جائے گا تو اُس کے خلاف نفرت بڑھے گی۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور فوج کو قومی فوج کے طور پر صرف سرحدی نگرانی تک محدود کیا جائے اور طاقت