ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
ردّعمل ہے اور ہمیں اِس صورت ِ حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ملٹری ایکشن کا طرزِ عمل اِختیار نہ کیا جائے اور اپنی پالیسیوں کو غیروں کی خوشنودی کی بجائے قومی مفادات سے وابستہ کیا جائے۔ کسی کو سیاست کا شوق ہے تو وہ خود کو فوج سے اَلگ کرلے۔ فوج کا پولیس کے ذریعے اِستعمال فوج کے تشخص اور وقار کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔ فوج اور قوم کے درمیان براہِ راست تصادم کی صورت ِ حال پیدا کرنا دُشمن کا ایجنڈا تھا جو آج پورا ہورہا ہے۔ ٭ نوائے وقت سے گفتگو میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل نے کہا کہ لال مسجد پر ردّعمل کا واقعہ نکتہ آغاز ہے نکتہ اختتام نہیں اور یہ سب کچھ اُس امریکی پالیسی کا شاخسانہ ہے جس کے تحت خود فوج کو اپنے ہی بچوں کے قتل و غارت کا مشن سونپا گیا لہٰذا وقت آگیا ہے کہ حملوں کے رُجحان سے نکلنے کے لیے امریکہ کو مودٔبانہ اِنکار کردیا جائے اور واضح کیا جائے کہ ہم آپ کی خاطر اپنے ملک میں خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اُنہوں نے کہا کہ مدرسوں کو ٹارگٹ کرنا روشن خیالوں کی خواہش تھی جس کو فوج کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے تاکہ یہ لوگ اپنی عیاشیاں جاری رَکھ سکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کے لیے جاری تحریک کے بعد فوج کو قومی فوج رکھنے کے لیے ایسے عنصر سے نجات ضروری ہے جو اُسے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اِنہیں اگر سیاست کرنا ہے تو وہ خود کو فوج سے اَلگ کریں۔ اُنہوں نے کہا کہ فوج اور قوم کے درمیان نفرت کے ذمّہ دار ایک شخص اور اُس کی پالیسیاں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ 11/9 کے واقعات کے بعد اختیار کی جانے والی پالیسی خوف کی بنیاد پر تھی جس نے آج ہمیں اِس صورت ِ حال سے دوچار کیا ہے اِس پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ ٭ آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل (ر) اَسد دُرّانی نے مسلح اَفواج پر حملوں کو ردّعمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِس میں حیرانگی والی بات نہیں کیونکہ یہ تو ہونا تھا۔ آپ جو کچھ چھ سات سال سے کررہے ہیں اُس پر کب تک خاموشی رہتی؟ جب ہم اپنے