ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
کا ایک گروہ مجلس جمائے بیٹھا تھا کہ اَچانک اُن میں سے ایک شخص نے کہا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو اُٹھ کر (فلاں محلے اور قبیلے میں) جائے جہاں فلاں خاندان میں ایک اُونٹ ذبح کیا گیا ہے، اُس (اُونٹ) کی اوجڑی، اُس کا خون اور اُس کی بچہ دانی اُٹھالائے اور اِن سب کو رکھ لے، پھر جب محمد (ۖ) مسجد میں جائیں تو وہ اِن کو اُن کے مونڈھوں کے درمیان (کمر پہ) رکھ دے۔ (یہ سُن کر) ایک اِنتہائی بدبخت شخص اُٹھااور اِن چیزوں کو لانے کے لیے چلا گیا اور یہ سب چیزیں لاکر جب آنحضرت ۖ سجدہ میں گئے تو آپ کے مونڈھوں کے درمیان رکھ دیا۔ آنحضرت ۖ اِن چیزوں کے بوجھ کی وجہ سے اُٹھ نہ سکے اور سجدہ میں پڑے رہ گئے۔ وہ بدبخت یہ دیکھ کر ہنسنے اور ٹھٹھا مارنے لگے اور اِس قدر بدحال ہوئے کہ ہنستے ہنستے ایک دُوسرے پر گرگیا۔ ایک شخص نے یہ سارا ماجرا حضرت فاطمہ سے جاکہا۔ حضرت فاطمہ دوڑتی ہوئی آئیں، دیکھا کہ آپ ۖ (اِن غلاظتوں میں دَبے ہوئے) سجدہ میں پڑے ہیں۔ حضرت فاطمہ نے اِن تمام چیزوں کو آپ کی پُشت پر سے اُٹھاکر پھینکا اور اِن بدبختوں کی طرف متوجہ ہوکر اِن کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔ جب رسولِ اکرم ۖ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے یہ دُعاء کی : اے اللہ تو قریش کی گرفت فرما، آپ نے یہ دُعاء تین بار فرمائی اور آپ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ جب دُعاء کرتے اور اللہ کو پکارتے تو تین بار دُعاء کرتے۔ اِسی طرح جب آپ اللہ تعالیٰ سے اِلتجا کرتے تو تین بار اِلتجا کرتے۔ پھر آپ نے دُعاء کی :الٰہی عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، اُمیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط، عمارہ بن ولید کی گرفت فرما۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (جو اِس حدیث کے راوی ہیں) فرماتے ہیں اللہ کی قسم میں نے غزوۂ بدر کے موقع پر اِن کافروں کو زمین پر پچھڑے ہوئے دیکھا (یعنی اُس دن یہ سب کے سب ہلاک و برباد ہوگئے) پھر اُن کو میدان سے کھنیچ کر ایک کنویں میں جو مقامِ بدر کا کنواں تھا، ڈال دیا گیا۔ اِس موقع پر رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا تھا کہ اِن کنویں والوں پر لعنت مسلط کردی گئی ہے۔