ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
عتزال کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ (٦) آپ نے لکھا ہے کہ عَلَیْہِ السَّلَامْ کی تُک ایجادِ شیعہ ہے۔ تو کیا امام بیہقی آپ کے نزدیک شیعہ ہیں؟ ذرا بیہقی کا مطالعہ کرکے دیکھیں۔ (٧) اَب اِس حدیث کی تحقیق اگر آپ اپنے ذہنی دائرہ سے آزاد ہوکر کرنی چاہیں تو اَللَّآ لِیْ المَصْنُوْعَة فِی الْاَحَادِےْثِ الْمَوْضُوْعَةْ میں اِس کا مطالعہ کریں۔ ص ٣٣٤ وغیرہ۔ یہ حدیث اُنہوں نے وہاں نقل کی ہے اور متعدد آراء اور طُرق ِ حدیث بھی جمع کیے ہیں۔ فضائل سیدنا علی کرم اللہ وجہہ' قرة العینین اور ازالة الخفاء میں شاہ ولی اللہ صاحب نے اور تہذیب التہذیب جلد ہفتم میں ص ٣٣٦ پر حافظ ابن ِ حجر نے یہ روایت نقل کی ہے۔ اور اُسد الغابہ میں جزری نے ص ٢٢ پر، اور حافظ ابن ِ کثیر نے البدایہ والنہایہ جلد ہفتم میں ص ٣٥٨ پر دی ہے، اور ترمذی شریف میں تو ہے ہی۔ اگر یہ اُن کے نزدیک ناقابل نقل ہوتی تو یہ حضرات کیوں نقل کرتے۔ (٨) اِس حدیث کو باطل قرار دینا میرے نزدیک غلط ہے۔ اور اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ کی آسان توجیہ یہ ہے کہ دُنیا میں کسی بھی شہر کا ایک دروازہ نہیں ہوتا۔ (جس شہر کے گرد شہر پناہ ہوتی ہے اُسی کے دروازے ہوتے ہیں اور وہ کبھی ایک نہیں ہوتا) لاہور میں بھی تقریبًا دس دروازے ہیں۔ تو حضرت علی کو منجملہ دُوسرے دروازوں کے ایک دروازہ فرمادینے میں کیا اِستبعاد ہے۔ شیعوں سے بلاوجہ مرعوب ہوکر ایک حدیث کو باطل کہنے سے کیا فائدہ؟ نیز بلاشبہ تصوف یعنی ''اِحسان'' کا سب سے بڑا دروازہ حضرت علی ہیں کہ چاروں طریقے آپ ہی پر بلااِنقطاع منتہی ہوتے ہیں۔ اگر آپ تصوف کو نہ مانتے ہوں اور اِس کے بالکل قائل نہ ہوں تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کی علمیت اِتنی عظیم ماننی پڑے گی کہ وہ دروازہ ہوں۔(دیکھیں تدریب الراوی ص ٤٠٤ اور تہذیب التہذیب اعلام الموقعین وغیرہ) اور ہمارے نزدیک وہ خلیفۂ رابع بھی تھے۔ میں نے یہ عریضہ اِس لیے لکھا ہے کہ شاید آپ اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ اِس کے لیے میں نے کچھ صراحت اور کچھ اِشارات بھی پیش کیے ہیں اور حوالے بھی۔ جو اگر آپ مطالعہ کریں تو کافی ہوسکتے ہیں۔ اور جلدی اِس لیے لکھا کہ رمضان میں میں مکاتبت نہیں کروں گا۔ میرا مقصود مناظرہ نہیں ہے لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ۔ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ وَمَاعَلَیْنَا اِلاَّ الْبَلَاغُ ۔ ( جاری ہے )