ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
کے بعد ابن ِ علقمی، طوسی، باقر مجلسی کا کیوں ذکر کیا؟ اِن سے تشبیہ دے کر پھر حاکم کو اِسی صف میں لاکھڑا کردیا جس سے نکالا تھا۔ تاریخ پر جو آپ نے روشنی ڈالی ہے وہ میں بھی جانتا ہوں۔ شاید آپ مجھ سے متعارف نہیں۔ جتنا آپ اِن کے مخالف ہیں اُتنا ہی میں بھی ہوں۔ ابن ِ طاہر کی بات دو رَنگی ہے : (١) تَفَقُّہ فی الحدیث (٢) رافضی خبیث۔ اِس لیے حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے رافضی ہونے کی تردید کردی ہے۔ اِنہیں حفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے اور تذکرة الحفاظ میں اِن کا ذکر فرمایا ہے۔ اُنہوں نے جلد سوم میں ص ١٠٣٩ سے ١٠٤٥ تک اِن کے حالات اور اِن کے بارے میں اَقوال وغیرہ دیے ہیں۔ پھر اپنی رائے میں اُنہوں نے کہا ہے اَمَّا اِنْحِرَافُہ عَنْ خُصُوْمِ عَلِیٍّ فَظَاھِر وَاَمَّا اَمْرُ الشَّیْخَیْنِ فَمَعْظَم لَّھَا بِکُلِّ حَالٍ فَھُوَ شِیْعِیّ لاَ رَافِضِیّ ۔ لیکن یہ دونوں باتیں بھی دو وجہ سے صحیح نہیں ہیں۔ ذہبی کی پہلی بات اَمَّا اِنْحِرَافُہ کا جواب تو یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی جلیل القدر تصنیف معرفة علوم الحدیث میں ص ١٣٧ پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے سے جو گفتگو حضرت علی کرم اللہ وجہہ' نے کی ہے، دی ہے وہ دیکھ لیں کہ حضرت علی نے حضرت طلحہ کی تعریف فرمائی اور معترض پر ایسی زور سے دوات پھینک کر ماری کہ اگر وہ لگ جاتی تو وہ زخمی ہوجاتا۔ اگر وہ ایسے ہوتے جیسے کہ حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ کا خیال ہے تو یہ واقعہ نہ نقل کرتے۔ اُن کی دُوسری بات جو اَمَّا اَمْرُ الشَّیْخَیْنِ سے شروع ہوئی یہ بھی دُرست نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت عثمان کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ' سے افضل سمجھتے ہیں۔ دیکھیں اِسی کتاب کے ص ١٣٥ کا آخری حصہ۔ لہٰذا اُن کا یہ فرمانا فَھُوَ شِیْعِیّ بھی دُرست نہیں۔ (ب) وہ جگہ جگہ اسماء خلفاء کرام بالترتیب ہی لکھتے ہیں۔ مثلاً ص ٢٢ اور ص ٢٠٢ و ص ٢٠٣ وغیرہ دیکھیں۔ (ج) اُس کتاب کا مقدمہ بھی پڑھیں۔ و، ز، ج۔ یہ تو حاکم رحمة اللہ علیہ کے بارے میں آپ کو بتلانا ضروری معلوم ہوا اِس لیے لکھا گیا کیونکہ اگر آپ نے ہر محدث کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کردیا تو علم حدیث کا تو صفایا ہوجائے گا۔ ایسا کون ہے جس پر کسی نے اِعتراض نہ کیا ہو۔ اگر بلا تحقیق شک کا دروازہ کھل جائے تو کسی اور پر کوئی اورکسی طرح اِعتراض کرے گا اور آپ تنگ آجائیں گے۔ اپنی ناپسند حدیث جن دلائل سے رد کریں گے اُن ہی دلائل سے آپ کی پسند کی حدیث پر بھی رد وَارد ہوگا۔ اِس سے نتیجةً انکارِ حدیث اور