ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
َقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ... الآیہ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ بلکہ صَلِّ عَلَیْہِمْ بھی آیا ہے۔ آپ نے کَرَّمَ اللّٰہُ کے جملہ کو جدت فرمایا ہے حالانکہ اِس کی اصل موجود ہے اور خصوصیت ِ انتساب ردِّخوارج کی وجہ سے ہے۔ دیکھئے : رسول اللہ ۖ سے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان صحابیہ نے عرض کیا تھا کہ جن کے یہاں اِن کا قیام تھا اور وفات ہوئی تھی رَحْمَةُ اللّٰہِ عَلَیْکَ اَبَا السَّائِبِ فَشَھَادَتِیْ عَلَیْکَ لَقَدْ اَکْرَمَکَ اللّٰہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَایُدْرِیْکِ اِنَّ اللّٰہَ اَکْرَمَہُ...اَلْحَدِیْث ۔ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے شَھَادَتِیْ عَلَیْکَ پر رد فرمایا ہے اور دُوسری چیز کی نفی و اِثبات میں توقف کی تعلیم دی ہے۔ البتہ رَجَآئْ ١ جا ئز قرار دی۔ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ قرآنِ پاک میں مستحسن انداز میں آیا ہے اور صحابہ براہِ راست مخاطب ہیں۔ نمازِ جنازہ کی دُعائوں میں وَاَکْرِمْ نُزُلَہ بھی وَارد ہوا ہے۔ ملائکہ کے لیے بَلْ عِبَاد مُّکْرَمُوْنَ استعمال ہوا ہے اور قرآنِ پاک کے لیے بھی اِنَّہ لَقُرْآن کَرِیْم فرمایا گیا ہے۔ (٢) آپ کے اِس خط سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ : الف : ''آپ سیدھے سادے مسلمان ہیں''۔ ب : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد عشرہ مبشرہ کی فضیلت کے قائل ہیں۔ یہ سیدھا سادہ مسلمان ہونا بڑے خطرناک راستہ پر گامزن ہونا ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جدھر بھی اپنی مرضی ہوئی یا مطالعہ کا زور ہوا اُدھر ہی اِنسان چل دیتا ہے۔ اِس لیے آپ خلیفۂ رابع سیدنا علی کرم اللہ وجہہ ورضی عنہ کا درجہ نیچے گرانے کی حد تک گرگئے اور یہ خارجیت کی اِبتداء ہے ورنہ یہ عقیدہ کس کا ہے۔ ابن ِ تیمیہ، ابن ِ قیم، حا فظ ذہبی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبد العزیز رحمة اللہ علیہم میں سے کس کا ہے؟ اگر آپ اپنا تعارف کرادیتے تو آپ کے خیالات کے ساتھ اِستعداد کا بھی اَندازہ ہوجاتا اور جواب زیادہ مناسب طرح لکھا جاسکتا۔ میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ ممکن ہے کسی طبقۂ علماء کو یا کسی عالم کو اچھا جانتے ہیں تو اُس طبقہ یا اُس عالم کی بات سے تشفی ہوجاتی اور میں وہی لکھتا۔ اَب میں کسی کا نام لینے کے ١ اللہ تعالیٰ سے اچھی اُمید رکھنا