ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
امریکہ نے خود اِن کو تیار کیا ہے۔ اُسے اِن کی طاقت کا اندازہ ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد پاکستان کا وہی حشر ہوگا جو امریکہ کا عراق اور افغانستان میں ہورہا ہے۔ امریکہ کے پاس جدید اسلحہ اور سپر پاور ہونے کے باوجود اگر وہ عراق اور افغانستان میں ایسے لوگوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تو پاک فوج ایسے عوام کو کیسے روک سکتی ہے۔ اِن کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے۔ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے اِس خدشے کا اِظہار کیا ہے کہ اگر حکومت نے قبائلی علاقوں میں مقامی قبائلیوں کے خلاف آپریشن کرنے کی کوشش کی تو پاک فوج دَلدل میں پھنس جائے گی اور اِس جنگ کا دائرہ کار بلوچستان تک پھیل جائے گا۔ (روزنامہ نوائے وقت 18 جولائی 2007ء ) قارئین ِکرام ! ملاحظہ فرمائیں کہ تمام بڑے بڑے سابقہ جرنیل اِس بات پر متفق ہیں کہ ''آپریشن سائلینس'' اپنی ہی قوم کے معصوم بچے اور بچیوں کے خلاف بلاجواز اور ظالمانہ کارروائی تھی اور خاص طور پر اُس وقت اِس کارروائی کی سنگینی اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ شہید عبد الرشید غازینے علماء کرام کی اَنتھک کوششوں کے نتیجہ میں علماء اور میڈیا کی موجودگی میں اپنے کو حکام کے حوالہ کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کر دی تھی، مگر اِس سب کچھ کے باوجود امریکی سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر صدر پرویز مشرف نے مبینہ طور پر ظالمانہ ایکشن کا حکم دے کر اِسلام اور پاکستان کے لیے اِیثار اور قربانی کا جذبۂ صادق رکھنے والے دینی طلباء اور طالبات کا قتل ِعام کرایا۔ نیز تمام سابقہ جرنیل جب اِس بات کا کھل کر اِعتراف کررہے ہیں کہ جب اور جہاں کہیں بھی ہم نے اپنی عوام کے خلاف مسلح کارروائیاں کی ہیں تو اپنے پیچھے ہم لاشیں چھوڑ آئے۔ اور اپنی ہی قوم کے خلاف فوجی چڑھائی کبھی کامیاب نہیں ہوئی بلکہ ہمیں منہ کی کھانی پڑی اور ہم زخم چاٹتے رہ گئے۔ اِس موقع پر ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا ہورہا ہے کہ یہ دانائی اور ہوشمندی کی باتیں جرنیلوں کو ریٹائر ہونے کے بعد ہی کیوں سوجھتی ہیں، اپنی حاضر ڈیوٹی کے زمانے میں اِن کی دَانائی کہاں چلی جاتی ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حاضر ڈیوٹی کے دَوران یہ کسی اور طاقت کے ہاتھوں مرعوب ہوکر کارروائیاں