ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
اہل سنت والجماعت کے مذاہب ِ اربعہ کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ دین اسلام کو سمجھنے کے لیے چار دلائل ضروری ہیں۔ یعنی قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ِ شرعی۔ سب سے پہلے قرآنِ پاک سے رہنمائی لی جائے گی۔ اگر اُس میں مسئلہ واضح نہیں تو سنت ِرسول اللہ ۖ اور سنت خلفائے راشدین میں مسئلہ تلاش کیا جائے گا۔ (یاد رہے کہ حضور ۖ نے میری حدیث کی پیروی کرو، کہیں بھی نہیں فرمایا۔ جہاں بھی فرمایا اپنی اور خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع کا حکم دیا کیونکہ سنت احادیث میں ہی پائی جاتی ہے لیکن ہر حدیث سنت نہیں ہوتی۔ جیسے آپ ۖ نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا یہ حدیث ہے سنت نہیں۔ آپ ۖ نے جوتا پہن کر نماز پڑھی یہ حدیث ہے سنت نہیں۔ آپ ۖ نے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی یہ حدیث ہے سنت نہیں۔ کیونکہ حدیث منسوخ ہوسکتی ہے لیکن سنت منسوخ نہیں ہوتی۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ ۖ سو جاتے تھے لیکن آپ ۖ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ ایسے ہی آپ ۖ صومِ وصال رکھتے تھے صحابہ کرام نے رکھنے کی کوشش کی تو آپ ۖ نے منع فرمادیا۔ آپ ۖ نے بیک وقت نو نکاح فرمائے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی آپ ۖ بغیر مہر کے نکاح کرسکتے تھے لیکن ہمارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ اس قسم کی تمام احادیث آپ ۖ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھیں اُمت کے لیے سنت نہیں ہیں)۔ اگر کوئی مسئلہ سنت سے بھی واضح نہ ہو تو تمام صحابہ کرام جس بات پر متفق ہوگئے ہوں وہ بات دین بن جائے گی جیسے فاروقِ اعظم نے اپنے دَورِ خلافت کے آغاز میں اُمت ِ مسلمہ کو بیس تراویح پر اکٹھا کردیا۔ کسی ایک صحابی نے بھی اِس کی مخالفت نہیں کی۔ ابن تیمیہ اپنے فتاویٰ صفحہ ٤٠١ ج٢ پر اور غیر مقلد نواب صدیق الحسن خاں بھی عون الباری صفحہ ٣٠٧ ج٢ پر اِس اجماع کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے ہی حضرت عمر نے تمام مسلمانوں کو تین طلاقوں کے بعد رُجوع کرنے سے منع کردیا خواہ تین طلاقیں ایک مجلس میں دی ہوں یا مختلف مجالس میں۔ وہ سنت طریقہ سے دی گئی ہوں یا بدعی طریقہ سے۔ کسی صحابی نے اِس پر انکار نہیں کیا۔ ایسے ہی آج کے تمام علماء متفق ہیں کہ انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ تو معلوم ہوا کہ صحابہ کرام یا اُمت کے علماء جس مسئلہ پر اکٹھے ہوجائیں وہ بھی دین بن جاتا ہے اِسی کو ''اِجماعِ اُمت'' کہتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جس میں قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت رہنمائی نہ کریں تو ائمہ مجتہدین اُس مسئلہ میں قرآن و سنت کے اُصولوں کو سامنے رکھ کر اجتہاد کریں گے پھر ہر مجتہد اپنے اجتہاد پر عمل کرے گا اور عام آدمی کسی مجتہد کی تقلید کرے گا۔ اس قسم کے