ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا : قیامت کے دِن دوزخ میں سے ایک گردن نکلے گی (یعنی آگ کا ایک شرارہ لمبی گردن کی صورت میں نکلے گا) اُس گردن میں دیکھنے والی دو آنکھیں سننے والے دو کان اور بولنے والی زبان ہوگی۔ وہ کہے گی کہ میں تین طرح کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس بات پر متعین کیا ہے کہ میں اِن تین طرح کے لوگوں کو دوزخ میں کھینچ کر لے جائوں اور لوگوں کے سامنے اِن کو ذلیل و رُسوا کرکے عذاب میں مبتلا کروں) اُن میں سے ایک طرح کے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کے ساتھ تکبر و عناد کا برتائو کیا (یعنی دُنیا میں اُن پر حق ظاہر ہوا مگر اُنہوں نے حق کو قبول نہیں کیا) دُوسری طرح کے لوگوں میں ہر وہ شخص شامل ہے جس نے اللہ کے ساتھ دُوسرے معبود کو پکارا ہے اور تیسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو تصویر ساز ہیں۔'' ف : موجودہ دَور میں تصویر کا جس قدر شیوع اور پھیلائو ہوا ہے شاید ہی کسی دَور میں ایسا ہوا ہو۔ ہمارے معاشرہ میں تصویر کو لوگ کلچر و ثقافت کا ایک حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی تقریب، کوئی محفل، کوئی پروگرام، کوئی تہوار ہو تصویر اِس کا لازمہ بن گئی ہے۔ مکان ہو یا دُکان، بازار ہو یا میدان، اخبار ہو یا رسالہ ہر جگہ تصویر نظر آتی ہے حتی کہ پہننے کے کپڑوں پر، سونے کے کمبلوں پر ،کھانے پینے کے برتنوں پر ،بیمار کی دوائوں پر، بچوں کی گولی ٹوفی پر، عید مبارک کے کارڈوں پر، ایڈینٹی کارڈوں پر،شناختی کارڈوں پر ، پاسپورٹوں پر، روپیہ پیسوں پر ،جدھر دیکھیے تصویریں ہی تصویریں ہیں اور اَب تو مرنے والے بھی اِس سے محفوظ نہیں رہے۔ اُن کی بھی باقاعدہ مووی بنتی ہے۔ غمی اور خوشی کے سب لمحات شادی بیاہ کی ہر تقریب وی سی آر کی زد میں آگئے ہیں اور اِس بہانے فحاشی اور عریانی کا وہ طوفان برپا ہے کہ الامان والحفیظ۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ میں تصویر سازی پر انتہائی سخت وعیدیں وَارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث ِ پاک میں آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا : اُس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو۔ (بخاری و مسلم بحوالہ مشکٰوة ص ٣٨٥) ۔