ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
ایک انصاری کے باغ میں پہنچے۔ آپ نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ ہمیں کھجوریں کھلائو۔ باغ کے مالک نے کھجوروں کا ایک خوشہ لاکر (ہمارے سامنے) رکھ دیا۔ اُس میں سے رسول اکرم ۖ نے بھی کھایا اور آپ کے صحابہ (یعنی ہم لوگوں) نے بھی کھایا۔ پھر آپ نے ٹھنڈا پانی منگوایا جو آپ نے اور ہم نے پیا۔ اِس کے بعد آپ نے فرمایا : یقینًا قیامت کے دن تم سے اِس نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ (یہ سن کر) حضرت عمر نے کھجوروں کا خوشہ لیا اور اُس کو زمین پر دے مارا جس سے کھجوریں رسول اکرم ۖ کی جانب بکھرگئیں۔ پھر آپ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ۖ) کیا قیامت کے دن ہم سے اِس کے بارے میں سوال کیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں، ہر نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں سوال نہیں ہوگا۔ ایک تو وہ کپڑا جس سے آدمی اپنا ستر ڈھانپے ، دُوسرے روٹی کا ٹکڑا جس کے ذریعہ اپنی بھوک دُور کرے، تیسرے وہ بِل (چھوٹا سا مکان) جس میں گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے گھس جائے۔ ف : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل کہ آپ نے کھجوروں کا خوشہ زمین پر دے مارا ،یہ آپ کی حالت ِ جذب کا مظہر تھا جو قیامت کے دن ہر چھوٹی بڑی چیز اور ہر طرح کے جزی و کلی اُمور کے سوال و پُرسش کے سلسلہ میں خوف ِ خدا اور مواخذۂ آخرت کی ہیبت کی وجہ سے اُن پر طاری ہوگئی تھی۔ قیامت کے دن دوزخ سے ایک گردن نکل کر کہے گی میں تین طرح کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں : عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ عُنُق مِّنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَہ' عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ وَاُذُنَانِ تَسْمَعَانِ وَلِسَان یَّنْطِقُ یَقُوْلُ اِنِّیْ وُکِّلْتُ بِثَلٰثَةٍ بِکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، وَبِکُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا آخَرَ وَبِالْمُصَوِّرِیْنَ۔ ( ترمذی ج٢ ص ٨٥ باب ما جاء فی صفة النار، مشکٰوة ص ٣٨٦)