ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
حضرت معاویہ نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ : تم لوگ عرب ہو، تمہارے پاس زبان بھی ہے سنان(تلوار) بھی۔ تم نے اسلام ہی کی وجہ سے یہ شرف حاصل کیا ہے کہ تمام اقوام پر تم غالب آگئے۔ اُن کے مرتبے اُن کی میراث تمہیں مل گئی۔ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ قریش پر معترض ہو اور اگر قریش نہ ہوں تو تم پھر سے اُسی طرح ذلیل ہوجائو جیسے پہلے تھے۔ تمہارے امام (حکام و خلیفہ) تمہارے لیے ڈھال ہیں۔ تم اپنی ڈھال کو مت رَوکو (ناکارہ نہ کرو) آج تو تمہارے حکام تمہاری زیادتی برداشت کرتے ہیں اور تمہاری ذمہ داریاں اُٹھاتے ہیں، تم اُس بات سے رُک جائو جو تم نے شروع کی ہے۔( محب الدین علی العواصم عن الطبری ص ١٢٠) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ اور اِن کی اصلاح کی سعی فرمائی لیکن وہ اور سرکشی اختیار کرتے گئے، تلخی ہی بڑھتی گئی۔ اُس وقت حضرت معاویہ نے اِنہیں اپنے شہر شام کے صوبہ ہی سے نکل جانے کا حکم دے دیا تاکہ کم سمجھ عوام کے ذہن کو خراب نہ کریں، اُن کی گفتگو میں اندر سے جو بات نکل کر آتی تھی وہ قریش پر اعتراضات کی تھی کہ قریش کو جو کرنا چاہیے وہ نہیں کررہے۔ دین کی مضبوطی اور مفسدین کے قلع قمع کرنے میں کوتاہی کرہے ہیں۔ ایسی باتوں سے اُن کا مقصد عیب جوئی اور لوگوں کی نظر میں درجہ گھٹانا اور تحقیر تھا۔ (البدایہ ج ٧ ص ١٦٥) یہ حضرت عثمان اور سعید بن العاص کو بہت برا کہتے تھے۔ یہ نو یا دس آدمی تھے۔ اِن میں کمیل بن زیاد، اشتر نخعی جس کا نام مالک (بن زید) تھا ،ابن الکواء یشکری، ثابت بن قیس بن منقع نخعی، جُنْدُب بن زُہیر الغامدی، جندب بن کعب الازدی، عُرْوَة بن الجعد البارقی، صعصعہ کے ساتھ اُس کا بھائی زید بن صوحان بھی تھا اور ایک صحابی عمرو بن الحمق الخزاعی کا نام بھی لکھا ہے کہ وہ بھی اِن کے ساتھ تھے۔ (محب الدین علی العواصم ص ١٢٠) جن حضرات کے یہ نام ہیں اُن میں سے جن لوگوں کے حالاتِ زندگی معتبر کتابوں میں مل سکے ہیں وہ تحریر کررہا ہوں تاکہ یہ اندازہ کرنا آسان ہوجائے کہ یہ لوگ خود کیا تھے اور کس طرح مبتلاء فتنہ ہوگئے تھے کیونکہ اِن میں صحابہ بھی ہیں۔