ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
بھی تک اُس کے شوہر نے اُس سے صحبت نہیں کی تو جس وقت بالغ ہوئی ہے یعنی جس وقت اُس کی پہلی ماہواری شروع ہوئی فورًا اُسی وقت اپنی عدم رضا مندی ظاہر کردے کہ میں راضی نہیں ہوں یا یوں کہے کہ میں اِس نکاح کو باقی رکھنانہیں چاہتی چاہے اُس جگہ کوئی اور ہو چاہے نہ ہو بلکہ بالکل تنہا بیٹھی ہو ہر حال میں کہنا چاہیے۔ لیکن فقط اِس سے نکاح نہ ٹوٹے گا۔ عدالت میں جائے اور قاضی یا جج وہ نکاح توڑدے تب نکاح ٹوٹے گا۔ بالغ ہونے کے بعد اگر ایک لحظہ بھی چپ رہے گی تو اب نکاح فسخ کرانے کا اختیار نہ رہے گا۔ اور اگر اُس کا شوہر اُس سے صحبت کرچکا تب بالغ ہوئی تو بالغ ہوتے ہی فورًا انکار کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب تک اُس کی رضامندی کا حال معلوم نہ ہوگا تب تک قبول کرنے نہ کرنے کا اختیار باقی ہے چاہے جتنا زمانہ گزرجائے۔ ہاں جب وہ زبان سے صاف کہہ دے کہ میں منظور کرتی ہوں یا کوئی اور ایسی بات پائی گئی جس سے رضامندی ثابت ہوتی ہے جیسے اپنے شوہر کے ساتھ تنہائی میں میاں بیوی کی طرح رہی تو اَب اختیار جاتا رہا اور نکاح لازم ہوگیا۔ حق ِولایت کے چند مسائل : مسئلہ : قاعدے سے جس ولی کو نابالغہ کے نکاح کرنے کا حق ہے وہ پردیس میں ہے اور اتنی دُور ہے کہ اگر اُس کا انتظار کریں اور اُس سے مشورہ لیں تو یہ رشتہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پیغام دینے والا اِتنا انتظار نہ کرے گا اور پھر ایسی جگہ مشکل سے ملے گی تو ایسی صورت میں اُس کے بعد والا ولی بھی نکاح کرسکتا ہے۔ اگر قریب کے ولی سے پوچھے بغیر بعد والے ولی نے نکاح کردیا تو نکاح ہوگیا اور اگر اتنی دُور نہ ہو یا دُور تو ہو لیکن اُس سے رابطہ ممکن ہو تو اُس کی رائے لیے بغیر دوسرے ولی کو نکاح نہ کرنا چاہیے۔ اگر کرے گا تو اُسی ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا جب وہ اجازت دے گا تب صحیح ہوگا۔ مسئلہ : اِسی طرح اگر حق دار ولی کے ہوتے ہوئے دوسرے ولی نے نابالغ کا نکاح کر دیا مثلاً حق تو تھا باپ کا لیکن نکاح کردیا دادا نے اور باپ سے بالکل رائے نہیں لی تو وہ نکاح باپ کی اجازت پر موقوف رہے گا یا حق تو تھا بھائی کا اور نکاح کردیا چچا نے تو بھائی کی اجازت پر موقوف