ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
تعارف کے سلسلہ میں انگریزی زبان میں لکھا رسالہ لے کر آیا۔ اسلامی کتب خانہ کے ذمّہ دار جو اِس قصہ کے گواہ ہیں، کہتے ہیں : دوسری مرتبہ جب یہ آدمی میرے کتب خانہ میں آیا تو اُس کے ساتھ چار عورتیں تھیں۔ تین تو اُن میں برقع پوش تھیں لیکن ایک برقع میں نہیں تھی اور اُس کا سر بھی کھلا ہوا تھا۔ میں اُس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ کوئی رُوسی عورت ہے۔ اُس عورت نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے اُس سے کہا کہ وہ بعض دینی کتابوں کا پہلے اچھی طرح مطالعہ کرلے اِس لیے کہ یہاں کے ذمّہ داران اسلام میں داخل ہونے سے پہلے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ بہر حال جو کچھ میں نے اُسے دیا اُس نے پڑھا۔ پھر وہ اس آدمی کے ساتھ آئی اور امتحان میں کامیاب ہوگئی۔ جب وہ اپنے اسلام کا اعلان کرچکی تو میں نے اس آدمی کو چند عورتوں کا حوالہ دیا کہ اُن میں سے کسی ایک سے اس لڑکی کو قرآن کریم پڑھوادیا جائے۔ کچھ دِنوں کے بعد وہ آدمی مجھ سے ملاقات کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ آیا (اَب وہ رُوسی دوشیزہ اِس کی شریک حیات بن چکی تھی) وہ بہت خوش تھا اور اس بات پر باری تعالیٰ کا شکر گزار ورَ طب اللسان تھا کہ ہر چیز اس کے اِرادہ سے بہتر میسر ہوئی۔ اس مرتبہ اُس عورت کو دیکھ کر جس چیز نے مجھے حیران کردیا وہ یہ تھی کہ اِس بار وہ مکمل طور پر برقع میں چھپی ہوئی تھی۔ اپنی ساس اور نندوں سے بھی زیادہ۔ اس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہورہا تھا۔ اُس کے شوہر نے اِس کے برقع اَوڑھنے کی تفصیل مجھے یوں بتائی : شادی کے بعد ہم دونوں بعض ضروری چیزوں کو خریدنے کے لیے بازار گئے۔ وہاں میری بیوی کی نظر ایک ایسی برقع پوش پر پڑی جس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہورہا تھا۔ اُس نے مجھ سے اَز راہِ تعجب اُس عورت کا سراپا دیکھ کر سوال کیا، یہ اس طرح کیوں اپنے جسم کو چھپائے ہوئے ہے؟ کیا اِس میں کوئی عیب ہے؟ میں نے اِسے بتایا کہ یہ عورت اپنے اس عمل سے اللہ رب العزت کی مکمل خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اُس وقت میری بیوی نے مجھے بتایا کہ میں جب بھی کسی بازار میں داخل ہوتی ہوں تو لوگ اِس طرح ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھتے ہیں کہ ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کے بعد اُس نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا چہرہ فتنوں کو وجود بخشتا ہے اس لیے اِس کو ڈھانکنا ضروری ہے۔ صرف میرا شوہر میرا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اب میں اس بازار سے بغیر برقع لیے نہیں جائوں گی۔ اِس کے بعد اُس کے شوہر نے کہا کہ اب تو تیرے لیے برقع خریدنا ضروری ہے۔