ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
کی عدالت میں پیش ہوکر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اِنہیں چاہیے کہ خدا خوفی کے ساتھ مبنی بر انصاف فیصلے کیا کریں اور دُنیا کی خاطر اپنی عاقبت کو برباد نہ کریں اور دوذخ کو اپنا ٹھکانا نہ بنائیں۔ اِس موقع پرراقم الحروف کو ''سُلجوقی'' دَور کے ایک مشہور قاضی ''کمال الدین شہرزوری'' کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ یہ واقعہ ظریفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناصحانہ بھی ہے، موقع کی مناسبت سے ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ''مشہور قاضی کمال الدین شہرزوری کے متعلق لکھا ہے کہ (سلطان) مسعود کے کیمپ میں کسی ضرورت سے حاضر ہوئے۔ مغرب کا وقت آگیا، قریب ہی ایک خیمہ میں دیکھا کہ کوئی نماز پڑھ رہا ہے۔ قاضی صاحب اِسی خیمہ میں داخل ہوگئے اور نماز میں اس کے ساتھ شریک ہوگئے۔ نماز کے بعد پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟جواب میں کہا گیا کہ فلاں شہر کا قاضی ہوں۔ شہرزوری نے کہا کہ تین قسم کے قاضی ہوتے ہیں جن میں دو جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ جہنم میں جانے والے ہم تم دونوں قاضی ہیں جو اِن سلاطین کے آستانوں پر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور جنتی قاضی وہ ہیں جن کی صورت نہ اِن سلاطین نے دیکھی اور نہ اُس نے اِن سلاطین کی صورت دیکھی۔ دراصل یہ خود سلطان مسعود تھا۔ صبح کو قاضی شہرزوری جب سلطان کے پاس پیش ہوئے تو ہنستے ہوئے مسعود نے کہا کہ فرمائیے قاضی صاحب !تین قاضیوں کا وہ کیا قصہ ہے؟ شہرزوری سمجھ گئے کہ خود سلطان سے مغرب کے وقت وہ گفتگو میں نے کی تھی۔ بولے جی ہاں واقعہ تو وہی ہے جو میں نے عرض کیا تھا۔ سلطان نے کہا کہ سچ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ نیک بخت سعید آدمی ہیں جس نے نہ ہماری صورت دیکھی اور نہ ہم نے اُس کی صورت دیکھی''۔ (مقالات ِاحسانی ص ١٣٠) شروع ہی میں جنت میں چلے جانے والے تین طرح کے لوگ : عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ ۖ قَالَ عُرِضَ عَلَیَّ اَوَّلُ ثَلٰثَةٍ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ شَھِیْد وَّعَفِیْف مُّتَعَفِّف وَّعَبْد اَحْسَنَ عِبَادَةَ اللّٰہِ وَنَصَحَ لِمَوَالِیْہِ