ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
فَاِنَّھَا لَا تَضُرُّکَ الْفِتْنَةُ مَاعَرَفْتَ دِیْنَکَ اِنَّمَا الْفِتْنَةُ اِذَا اشْتَبَہَ عَلَیْکَ الْحَقُّ وَالْبَاطِلُ فَلَمْ تَدْرِ اَیُّھُمَا تُتَّبَعُ فَتِلْکَ الْفِتْنَةُ ۔ (مصنَف ابن ابی شیبہ ج ٤ ص ٩٣٠ قلمی ،کتب خانہ پیر جھنڈا) آپ کو اُس وقت فتنہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا جب تک آپ اپنے دین کو پہچانتے رہیں۔ فتنہ وہ ہوتا ہے جب حق اور باطل میں تمیز نہ رہے اور آپ کو یہ نہ پتہ چلے کہ دو میں سے کون سی بات پر عمل کرنا صحیح رہے گا تو وہ فتنہ ہوگا۔ ہوا اِسی طرح ہے کہ دَورِ فتن کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا ہے پھر وہ اُمت میں قائم رہے ہیں۔ فتنے گھروں میں اُترے ہیں یعنی خانہ جنگی ہوئی ہے اور اِن کا آغاز ایسے ہی نا سمجھ لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو دین کی پوری سمجھ نہ رکھتے تھے ،اپنی سمجھ پر چلتے تھے۔ آیات اور احادیث کا مطلب سمجھنے میں ان سے غلطی ہورہی تھی۔ وہ بجائے اِس کے صحابہ کرام کا اتباع کریں خود تفسیر و تاویل کرتے تھے۔ صحابہ کرام کی تقلید کے بجائے اُن پر اعتراض کرتے تھے حتی کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عمال (گورنروں) کی تکفیر کرنے لگے پھر حضرت عثمان کی اور پھر آخر میں حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی تکفیر کرنے لگے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : اہل سنت کی یہ علامتیں ہیں : یُفَضِّلُ الشَّیْخَیْنِ وَیُحِبُّ الْخَتَنَیْنِ وَ یَرَی الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ۔ (عنایہ شرح ہدایہ مع فتح القدیر ج ١ ص ٩٩) شیخین ابوبکر و عمر کو حضرت عثمان و علی سے افضل جانے۔ حضرت عثمان و علی سے محبت رکھے( رضی اللہ عنہم) اور خُفین (موزوں) پر جواز ِمسح کا قائل ہو۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دَورِ خلافت کا خاکہ سَن وار لکھ دیا جائے تاکہ فتنہ پردازوں کے نام اور اُن کے اعتراضات کے جوابات اور ساتھ ہی یہ کہ اُن کی سازش کے کیا اثرات ہوئے جو مدینہ منورہ اور صحابہ کرام پر بھی ہوئے۔ یہ سب رُوداد سامنے آجائے۔ ٭ ٣ محرم ٢٤ ھ : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دست ِ مبارک پر بیعت کی گئی۔ (البدایہ ج ٧ ص ١٤٧)۔آپ خطبہ کے لیے منبر پر اُس جگہ تشریف فرما ہوئے جہاں رسول اللہ ۖ تشریف فرما