ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
قسط : ١٢ اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) درود میں اہل ِبیت کا شریک ہونا : (٤٣) مَنْ صَلّٰی صَلٰوةً لَمْ یُصَلِّ فِیْھَا عَلٰی اَھْلِ بَیْتِیْ لَمْ تُقْبَلْ مِنْہُ (اخرجہ البیہقی والدار قطنی عن ابی مسعود الانصاری رفعا و وقفا) فرمایا رسول ِمقبول ۖ نے جو شخص درود بھیجے کوئی درود جس میں میرے اہلِ بیت کو شامل نہ کرے (فقط مجھ پر درود بھیجے) تو وہ درود قبول نہ ہوگا اُس شخص سے (اللہ تعالیٰ کے دربار میں اور پورا ثواب نہ ملے گا اور ایسا کرنا مکروہ ہوگا )اس کو بیہقی اور دار ِقطنی نے روایت کیا ہے) ۔ اور جان لو کہ کوئی درود ایسا نہیں کہ مسلمان اُس کو بقاعدۂ عبادت بجالاوے اور اُس کا ثواب نہ ملے ہاں ثواب میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے۔ درود شریف کا مقبول ہونا ضروری ہے پس اگر اچھی طرح بشرائط ِشرعیہ درود بھیجے تو ثواب کامل ہوگا ورنہ ناقص۔ علامہ باجی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب تو خدا سے دُعا مانگے تو اُس میں درود نبی ۖ پر شامل کرلے اِس لیے کہ درود نبی ۖ پر مقبول ہے اور اللہ پاک بڑا کریم ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ بعض دُعا (جو کسی مقصود کے لیے کی گئی ہے) رَد کردے اور بعض (درود) قبول کرلے اور پھر اِسی کے مثل حضرت سیدنا شیخ ابوطالب مکی اور مولانا محبوبنا امام محمد غزالی رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے حضرت زین الدین عراقی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ قول حدیث مرفوع مجھے ثابت نہیں ہوا بلکہ موقوف ہے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ پر۔ میں کہتا ہوں کہ یہ قول مرفوع کے حکم میں ہے اِس لیے کہ یہ حکم رائے سے ثابت نہیں ہوسکتا پس ہر درود کا مقبول ہونا لازم ہے جیسا کہ اُوپر حضرت ابودرداء اور حضرت ابن