ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی بھی کریں گے، اَولاد بھی ہوگی۔ عیسائیوں نے اِن کی تعلیم پر عمل نہیں کیا : لیکن شریعت ِ مطہرہ نے بتایا کہ وہ زندگی اُن کی اِبتدائی تھی، اِس کے بعد اُن کو شادی بھی کرنی تھی وہ آکر کریں گے، اَولاد بھی ہونی ہے وہ ہوگی اَب (جب وہ قیامت سے پہلے زمین پر اُتارے جائیں گے) تو اِنہوں نے جس حد تک وہ رہے اُس حد تک نقل کرلی اور تارک الدنیا ہونے لگے لیکن یہ نقل اپنی طرف سے ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم نہیں تھی کہ تم میری نقل کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور تھی۔ یہ قرآن ِ پاک میں آتا ہے وَرَھْبَانِیَّةَ نِ ابْتَدَعُوْھَا یہ رہبانیت تارک الدنیا ہوکر بیٹھنا اِبْتَدَعُوْھَا یہ اِنہوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا ہے۔ مَاکَتَبْنَاھَا عَلَیْھِمْ اِلَّاابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ ہم نے تو جو توراة میں، انجیل میں تعلیم دی تھی، بھیجی تھی وہ یہ تھی کہ خدا کی رضا چاہتے ہیں۔ جو کام کرو اُس میں اللہ کی رضا ہو بس یہ سوچ لیا کرو۔ مسائل کے لحاظ سے، تعلیم کے لحاظ سے کہ اللہ نے یہ بتلایا ہے، اِس چیز سے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں کہ جو ہم نے بتادیا وہ تم چاہتے رہو اور کرتے رہو۔ یہ نہیں کہ تارک الدنیا ہوکر بیٹھ جائو، یہ اِنہوں نے بدعت کی ہے اِبْتَدَعُوْھَا ایجاد کرلیا ہے، بدعت کرلی ہے اپنی طرف سے۔ اِسلام میں یہ نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے حضرت ِ ابوذر کو۔ باقی اُن کا مسلک جو تھا اُس پر وہ ڈٹے رہے۔ ذرائع آمدنی سے منع نہیں فرمایا : ہاں ایک بات تھی کہ وہ یہ نہیں فرماتے تھے کہ ذرائع آمدنی بھی نہ رکھو۔ مثلاً کسی کے پاس زمین ہے پیداوار ہے تو ہوتی رہے، ٹھیک ہے۔ مکان ہے اور اُس کا کرایہ آتا ہے تو ٹھیک ہے آتا رہے۔ وہ اِس کو منع نہیں فرماتے۔ وہ منع فرماتے تھے صرف روپیہ پیسہ جمع کرنے کو کہ یہ بالکل غلط ہے۔ بس جو آئے آگے بھیج دو اُسے اور آخرت کے لیے تیاری کرو اِس میں۔ چنانچہ ترقی یافتہ دَور میں جب تمام علاقے فتح ہوگئے، ایران بھی فتح ہوگیا اور اُدھر رُوم بھی فتح ہوگیا۔ تو دونوں سلطنتیں ختم ہوگئیں، اُس دَور میں اُن کا حال یہی تھا، وہ اِسی طرح سے رہتے رہے ہیں۔