ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
ہوئے تھے۔ سب سے پہلا قضیہ جو آپ کے سامنے پیش ہوا ،وہ عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا تھا کہ اُنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زخمی ہونے کے بعد حملہ آور '' ابُولؤلؤة '' کی بیٹی کو قتل کیا پھر ایک نصرانی کو جسے ''جُفینہ'' کہا جاتا تھا تلوار مارکر قتل کردیا اور والی تُستر''ھُرمُزان'' کو بھی قتل کردیا کیونکہ لوگوں میں یہ بات ہورہی تھی کہ اِن دونوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ میں ابُولؤلؤة کی مدد کی تھی۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو عبید اللہ کی اِس کارروائی کا علم ہوا تو آپ نے انہیں قید کرنے کا حکم دے دیا تاکہ آپ کے بعد آنے والا خلیفہ اِس معاملہ میں فیصلہ کرے۔ جب حضرت عثمان خلیفہ ہوگئے اور مجلس میں تشریف فرما ہوئے تو سب سے پہلے یہی قضیہ پیش کیا گیا کہ عبید اللہ کے بارے میں کیا فیصلہ ہو۔ حضرت علی نے قصاص کی رائے دی کہ اِن کو چھوڑدینا عدل نہیں ہے۔ کچھ مہاجر حضرات نے کہا کہ کل تو اِن کے والد شہید کیے گئے ہیں کیا آج انہیں ماردیا جائے؟ حضرت عمرو بن العاص نے کہا : اے امیر المؤمنین آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اِس سے بری رکھا ہے یہ ایسا قضیہ ہے جو آپ کے دَور خلافت سے پہلے کا ہے (اِس دن آپ خلیفہ نہ تھے) تو اِسے چھوڑیے۔ یہ رائے حضرت عثمان نے پسند فرمائی۔ ان سب مقتولین کا خون بہا اپنے ذاتی مال میں سے دیا اور چونکہ ان کا کوئی عزیز ولی نہ تھا اس لیے وہ بیت المال میں جمع فرمادی۔ امام یعنی خلیفہ کو اختیار ہے کہ وہ ایسا طریقہ اختیار کرے جو زیادہ مفید ہو۔ پھر عبید اللہ کو چھوڑدیا۔ (البدایہ ج ٧ ص ١٤٩) ولید بن عقبہ : اِسی سال ولید بن عقبہ نے آذر بائیجان اور آر مینیہ پر اِن کے عہد شکنی کی وجہ سے اس علاقہ کے لوگوں نے پہلے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے جس معاہدہ کے تحت صلح کی تھی اس سے پھرگئے۔ ولید بن عقبہ نے کوفہ سے لشکر لیا اور انہیں زیر کیا۔ اُنہوں نے پھر مصالحت کی پیشکش کی ،وہ مان لی، آٹھ لاکھ درہم سالانہ جزیہ طے ہوا۔ ان سے ایک سال کا پیشگی جزیہ لے لیا گیا۔ (اسی طرح حضرت حذیفہ سے رَی یعنی تہران کے لوگوں نے بھی مصالحت کی تھی وہ توڑدی، وہاں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پیش قدمی کی اور اسے فتح کرلیا) ولید بن عقبہ کو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عراق کے علاقہ میں الجزیرہ کے مغربی حصہ کا حاکم مقرر فرمادیا تھا۔ حضرت عمر کی طرف سے جب یہ وہاں پہنچے تو اُس علاقہ کے لوگوں کا اُن کی طرف بہت