ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
زُہد کیا ہے ؟ زُہد کا مطلب ہے دُنیا کی محبت کا نہ ہونا ،یہ زُہد ہے اور دُنیا کی محبت کا ہونا یہ دُنیا داری ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی بہت متمول ہو بادشاہ ہوبلکہ، اورزاہد بھی ہوجیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کہ بادشاہ بھی تھے مگر زاہد تھے یعنی حُبِّ دُنیا نہیں تھا بالکل۔اور ہو سکتا ہے کہ ایک فقیر ہو کچھ نہ ہو اُس کے پاس لیکن زاہد نہ ہو کیونکہ زُہد کا مطلب تو دُنیا کی محبت ہے،ہو سکتا ہے کہ اُس کے دل میں دُنیا کی محبت بہت ہو ، تواگرچہ سامان کچھ نہیں ہے مگراُس کی سوچ وہی ہے دُنیا داری والی،تو وہ دُنیا دار ہے وہ زاہد نہیں ہے۔اور اگر اُس کے پاس سب کچھ ہے مگر سوچ اُس کی دُنیا داروں والی نہیں ہے بلکہ اُسے دُنیا سے محبت نہیں،اللہ اور اُس کے رسول سے اوراُس کے احکام سے محبت زائد ہے تو وہ زاہد ہے۔ تو حضرت ابوزراِس معنٰی میں زاہدتھے اگرچہ دوسرے معنٰی بھی پائے جاتے ہیں زَر گردش میں رہنا چاہیے، جمع نہیں رہنا چاہیے : مثال کے طور پر اُن کے ذہن میں یہ بات تھی کہ کوئی آدمی اپنے پاس روپیہ پیسہ نہ رکھے۔ بس روپیہ پیسہ آئے تو خرچ کردے، دوسروں کو دے دے۔ جمع کرنا، وہ کہتے تھے جمع کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ایک دفعہ ایسے ہوا کہ میں کھڑا تھا تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ تمہیں'' اُحد''(پہاڑ) نظر آرہا ہے،'' اُحد'' دیکھتے ہو؟ اِنہوں نے کہتے ہیں میں نے جلدی سے اُحد کو بھی دیکھا، سورج کو بھی دیکھا کہ ممکن ہے آپ مجھے کوئی کام فرمانا چاہتے ہوں، تو دِن کا وقت کتنا باقی ہے میں وہ کام دِن دِن میں فورًا کردوں۔ تو میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اِرشاد فرمایا کہ دیکھو اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں اُسے اپنے پاس رکھنا پسند نہیں کروں گا، میں اُسے تقسیم کردوں گا۔ تو اَب رسول اللہ ۖ کے ایسے جملے سننے کے بعد جو اِن کے ذہن مبارک میں بات جمی وہ یہ تھی کہ سونا اور چاندی یہ جمع کرنے کی چیز نہیں ہے یہ گردش میں رہنی چاہیے۔ تجارت میں لگے تو بھی ٹھیک ہے، کسی کو دے دیں تو ٹھیک ہے، اپنے پاس جمع کرکے رکھنا یہ بالکل غلط ہے۔ توتجارت کو تو ابوذر نے منع نہیں فرمایا۔ بس یہ کہتے تھے کہ جمع کرکے رکھنا یہ بالکل غلط ہے۔ اپنے پاس کوئی چیز جمع نہیں رکھتے ۔ برابری : ایک دفعہ ایسے ہوا کہ اِن کے پاس ایک صاحب گئے دیکھا جو لباس اِن کا وہی غلام کا۔ تو پوچھا اِن