ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
وہ لوگ سب دوسرے کمرہ میں رُوسی زبان میں بات چیت کررہے تھے۔ جو کچھ کہا جارہا تھا وہ میری سمجھ سے باہر کی چیز تھی۔ لیکن مجھے یہ افسوس ہوا کہ آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ پھر میں نے اس کمرہ میں ایک زور دار چیخ سنی۔ یکایک تین نوجوان اُن کے ساتھ ایک عمر رسیدہ آدمی مارنے کے لیے مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ بجائے اس کے کہ داماد ہونے کی وجہ سے وہ میرا استقبال کرتے، انہوں نے اتنی پٹائی کی کہ میں یہ سوچنے لگا کہ شاید یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں اور میرے لیے کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اِس کے کہ میں بھاگ جائوں۔ میں نے دروازہ کھولا اور دوڑتا ہوا سڑک پر آگیا۔ وہ لوگ میرا پیچھا کررہے تھے یہاں تک کہ میں پیدل چلنے والے لوگوں میں رُل مل گیا اور اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا وہاں چلا گیا، یہ جگہ میری سسرال سے دُور نہیں تھی۔ میری پیشانی اور ناک پر پٹائی کے اثرات واضح تھے۔ منہ سے مستقل خون جاری تھا اور کپڑے پھٹ چکے تھے۔ میں نے دل دل میں سوچا : میں تو بچ گیا لیکن میری بیوی کا اَب کیا حال ہوگا؟ میں تو اب اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تو اسے بہت چاہتا ہوں، ہوسکتا ہے کہ ختم ہوگئی ہو؟ ہوسکتا ہے مجھے چھوڑدے؟ ہوسکتا ہے کہ اسلام سے مرتد ہوجائے؟ یقینا شیطان اِس موقع پر بڑے وسوسے پیدا کررہا ہوگا۔ افکار و خیالات میرے دماغ میں گردش کررہے تھے یہاں تک کہ میں سمجھنے لگا کہ میری بیوی مجھ سے جدا ہوگئی۔ اب میں کیا کروں؟ کیا بیوی کے گھر جائوں؟ لیکن یہ تو محال ہے۔ اس لیے کہ اِن ممالک میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ کسی کرائے کے آدمی کو دس ڈالر دے کر مجھے قتل کروادیں۔ اس لیے کمرہ میں رہنا ہی ضروری ہے۔ پوری رات میں اِسی طرح کے افکار و پریشان خیالات میں ڈوبا رہا۔ صبح کو میں نے کپڑے بدلے اور کمرہ سے باہر نکلا تاکہ بیوی کے کچھ حال و احوال معلوم ہوسکیں۔ دُور سے کھڑا ہو کر اس کے گھر کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد گھر سے وہی چار آدمی نکلے۔ تین نوجوان اور ایک عمر رسیدہ، جنہوں نے میری پٹائی کی تھی۔ دروازہ بند ہونے سے پہلے میں نے اپنی بیوی کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن اُس پر نظر نہ پڑسکی۔ کچھ دیر بعد یہ لوگ واپس آگئے اور میں گھنٹوں سڑک پر بے فائدہ ٹہلتا رہا۔ تین دن تک میرا یہی کام تھا۔ اَب میری اُمید دم توڑ رہی تھی اور میں دِل دِل میں یہ سوچنے لگا کہ یا تو میری بیوی مجھے ناپسند سمجھنے لگی یا اُسے مار ڈالا گیا ہے۔ لیکن اُس کی موت پر یقین اِس وجہ سے نہیں ہورہا تھا کہ اگر وہ مرجاتی تو اُس کے گھر میں خلاف معمول چیزیں دیکھنے کو ضرور ملتیں مثلاً تعزیت کرنے والے اعزہ و اقرباء کا آنا جانا اور دیگر