ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
یَامَعْشَرَ ثَقِیْفٍ کُنْتُمْ اٰخِرَ النَّاسِ اِسْلَامًا فَلا تَکُوْنُوْا اَوَّلَھُمْ اِرْتِدَادًا۔ (تہذیب التہذیب ج ٧ ص ١٢٩) اے ثقیف کے لوگو ! تم لوگوں نے سب کے بعد اسلام قبول کیا تھا تو اِرتداد میں بھی پہل نہ کرو۔ ٭ ٢٧ ھ : سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَورِ مبارک میں کچھ سال کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ پھر بعض مسائل پر اعتراضات اُٹھے جن سے مفسدین نے بعد میںچنگا ریاں بھڑکائیں۔ مثلاً ٢٧ ھ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مصر کی گورنری سے حضرت عمرو بن العاص کو ہٹاکر حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو والی مصر بنادیا۔ یہ حضرت عثمان کے بھائی تھے۔ دونوں کی والدہ ایک تھیں۔ لیکن عبد اللہ اُن لوگوں میں تھے جن کے بارے میں جناب رسول اللہ ۖ نے فتح مکہ کے وقت حکم دیا تھا کہ جہاں بھی ملیں قتل کردیے جائیں کیونکہ وہ مسلمان ہوکر اِرتداد کے شکار ہوگئے تھے مگر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اِن کی سفارش فرمائی تو جناب رسول اللہ ۖ نے اَمان دے دی۔ پھر وہ پختہ مسلمان ہوگئے۔ اُن کے کارنامے البدایہ کے حوالے سے آپ کے سامنے آنے والے ہیں۔ شہادت ِعثمان کے وقت یہ مصر سے آرہے تھے کہ شہادت کا علم ہوا، عسقلان میں ٹھہرگئے۔ اُنہوں نے نہ حضرت علی سے بیعت کی نہ حضرت معاویہ سے اور نہ صفین میں شرکت کی۔ اُنہوں نے دُعاء مانگی کہ اے اللہ میرا آخری عمل نماز ہو۔ اُنہوں نے فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور والعادیات پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت پڑھی۔ دایاں سلام پھیرکر بایاں پھیرنے لگے تھے کہ وفات ہوگئی، یہ ٣٦ ھ میں ہوا، رضی اللہ عنا وعنہ ۔ (اُسد الغابہ ج٣ ص ١٧٤) حضرت عثمان نے انہیں والی افریقہ بناکر حکم دیا کہ افریقہ کے علاقہ میں پیش قدمی کریں۔ جب اللہ تعالیٰ اِن کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائیں گے تو انہیں مال غنیمت میں سے پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ (پچیسواں حصہ) دیا جائے گا۔ عبد اللہ نے پیش قدمی کرکے پہاڑی اور میدانی سب علاقے فتح کرڈالے۔ اِن کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔ پھر اس حصہ کے باشندوں نے اسلام قبول کرلیا، بعد میں بھی وہ پکے مسلمان رہے۔ حضرت عبد اللہ نے خُمس میں سے پانچواں حصہ رکھ کر چار حصے امیر المؤمنین کے پاس بھیج دیے باقی چار