ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
٭ آج یورپین قومیں خود آپس میں کون سی انسانیت عمل میں لارہی ہیں جو ایشیائی اور افریقی قوموں کے ساتھ عمل میں لائیں گی۔ پھر ہم تو ایشیائی اور ہندوستانی نیم وحشی ہیں ہی (اِن کی نظر میں) وہ جو مراعات کرتے ہیں محض اپنی مصالح کی بناء پر ۔پھر ایسی کافر قوم کے افراد سے کوئی اُمید ایسی ہے جیسے آگ سے پیاس بجھانے کی۔ ٭ مولانا شبیر احمد صاحب اور اُن کے ہم خیال مدرسین اور ملازمین اب ڈابھیل ضلع سُورت کو چلے گئے۔ نواب چتھاری نے اِن کو دو سو روپیہ ماہوار نہیں دیا بلکہ کئی سال ہوئے تھے حیدر آباد سے وہاں کے وزیر اعلیٰ جن کے جانشین چتھاری صاحب ہیں انہوں نے دو سو روپے پولیٹکل ڈیپارٹمنٹ سے مقرر کرا دیئے تھے وہ اِن کو برابر ملتے رہے۔ ٭ جمعیت کے بھی اکثر سرگرم اَرکان جیلوں میں بند ہیں۔ جو لوگ باہر ہیں وہ ڈیفنس کے آرڈیننس سے خائف ہیں۔ یہ ایسا ہتھیار ہے کہ جس کی نہ داد ہے نہ فریاد۔ جس کو چاہا دھرلیا۔ اوّل تو علماء میں عموماً احساس ہی نہیں اور جن کو کچھ ہے وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر ہراساں اور بید لرزاں ہیں پھر کس طرح بنے؟ ٭ آپ نے دیہات کے عوام کی حالت بچشم خود دیکھی ہے۔ کیا اِس کی ذمّہ داری سے علماء بری ہوسکتے ہیں۔ روایت میں فرمایا گیا ہے آج فوجاً فوجاً لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں پھر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ فوجاً فوجاً اسلام سے خارج ہوں گے فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَآئِ کیا اِس کی شہادت نہیں دیتی ہے جس طرح ابتداء میں اِسلام اُوپرا اور منکر تھا۔ (بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا) اِسی طرح اس زمانہ میں غریب ہوتا جا رہا ہے (وَسَیَعُوْدُ غَرِیْبًا) ان لیگیوں کی اسلامیت کیا مصطفی کمال کی سی صرف نام کی اسلامیت نہیں ہے۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی ۔ ٭ شکستہ حالی اور گرے ہوئے مسلمان، ادنیٰ طبقہ اور متوسط کو تو سنبھالا جاسکتا ہے۔ مگر تعلیم یافتہ (انگریزی خواں، اور اَرباب ِدول) مسلمانوں کو پہلے بھی مشکل تھا اور اَب تو تقریباً محال ہوگیا ہے۔ ٭ لیگی صرف سیٹوں اور عہدوں کے لیے طوفان خیز کارروائیاں عمل میں لاتے ہیں مگر مسلم عوام کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ ان کی دیانت اور اسلام تو کیا دیکھتے۔ غربت اور افلاس، ان کی جہالت ان کی بیکاری اور پسماندگی وغیرہ کی طرف بھی بالکل توجہ نہیں۔ علمائے دین اوّل تو نہایت کم ہیں، وہ بھی اپنی بڑی