ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
٭ مالٹا میں کوڑے کا واقعہ بالکل غلط ہے۔ کسی کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیا گیا۔ ٭ آج موقعہ ہے کہ بڑے دُشمن سے ترک موالات کیجیے اور اُس کو زِک دینے کے لیے غیروں کو ساتھ لیجیے جیسے یہود بنی حارثہ کو خیبر میں صفوان ابن ِاُمیہ اور دیگر طلقاء مکہ کو حنین میں خزاعہ کو حدیبیہ وغیرہ میں ساتھ لیا گیا۔ ٭ مداراة بالاعداء مع البغض الباطنی بالفعل زیادہ ضروری اور مفید ہے اور حتی الوسع موالات ممنوعہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ ٭ انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں ہے بلکہ مذہبی ہے۔ البتہ وہ اکبر الاعداء اور اقوی الاعداء اور اضر الاعداء ہیں۔ ان کی اسلامیت سے نا اُمیدی ہو مَا نَحْنُ فِیْہِ ایسا نہیں۔ اگر وہ اِسلامی دُنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دَست بردار ہوجائیں تو ترکِ موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہوگی، البتہ تا بقائے کفر مصالحت کی بنا پر نہ موالات تامہ ہوگی اور نہ معاملات تامہ۔ ٭ اگرچہ انگریز چھوت چھات کا معاملہ نہیں کرتے مگر اسلام کے بدترین اور اعلیٰ ترین دُشمن ہیں بخلاف ہنود ۔یہ ہمارے پڑوسی ہیں اگرچہ کافر ہوں، پڑوسی پر حق رکھتا ہے کَمَا وَرَدَ فِی الْحَدِیْثِ ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے یا آباء کے ساتھ یا جدات کے ساتھ۔ ہندوستان میں ہم کو مجبورًا رہنا اور درگزر کرنا ہے۔ بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو ہندوستان میں گزر کرنا عادتاً مستحیل ہے۔ اِس لیے ضروریات ِزندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی۔ ٭ چھوت چھات ہندو قوم کو روز افزوں کمی کی طرف دھکیل رہی ہے اور اسلام باوجود ہر طرح کی کمزوریوں کے ترقی پارہا ہے۔ ٭ ہماری اِس تحریک کے رُوح ِرواں حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ ہیں باوجود ہر قسم کے کمالات ظاہری اور باطنی کے اور تصوف و معرفت خداوندی میں استغراق و انہماک کے، اُن کی خصوصی توجہ اِس خبیث حکومت کے انقطاع کی طرف ہمیشہ آخر دم تک رہی۔ اُن پر بغض فی اللہ کا اِس قدر غلبہ تھا کہ فرماتے تھے مجھ کو اپنے نفس کے ساتھ یہاں تک بدگمانی ہے کہ غالباً مجھ کو اسلام کی خیرخواہی اور محبت اس قدر نہیں ہے جتنی کہ اس خبیث قوم (انگریز) کی بدخواہی اور عداوت۔ حالانکہ یہ بغض بھی اِسلامی محبت کا ہی لازمہ ہے۔