ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
تَلَیْتَ وَیُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَةً فَیَصِیْحُ صَیْحَةً یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ۔ (بخاری و مسلم بحوالہ مشکوٰة ص ٢٤) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا : (مرنے کے بعد) بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اُس کے ساتھی (یعنی اُس کے جنازہ کے ساتھ آنے والے) چل دیتے ہیں (اور اَبھی وہ اتنے قریب ہوتے ہیں کہ) اُن کی جوتیوں کی چاپ وہ سن رہا ہوتا ہے تو اُسی وقت اُس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اِس کو بٹھاتے ہیں پھر اِس سے پوچھتے ہیں کہ تم اِن صاحب کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ اُن کا یہ سوال حضرت محمد ۖ کے متعلق ہوتا ہے۔ پس جو سچا مومن ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ (میں گواہی دیتا رہا ہوں اور اب بھی) گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول برحق ہیں ۔(یہ جواب سن کے) فرشتے اُس سے کہتے ہیں کہ (ایمان نہ لانے کی صورت میں) دوزخ میں جو تمہاری جگہ ہونے والی تھی ذرا اُس کو دیکھ لو۔ اب اللہ نے بجائے اُس کے تمہارے لیے جنت میں ایک جگہ عطا فرمائی ہے اور (وہ یہ ہے) اِس کو بھی دیکھ لو (یعنی دوزخ اور جنت دونوں مقام اُس کے سامنے کردیے جائیں گے) چنانچہ وہ دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا ۔اور جو منافق اور کافر ہوتا ہے تو اسی طرح (مرنے کے بعد) اُس سے بھی (رسول اکرم ۖ کے متعلق ) پوچھا جاتا ہے کہ اِن صاحب کے بارے میں تم کیا کہتے تھے؟ پس و ہ منافق اور کافر کہتا ہے کہ میں اِن کے بارے میں خود تو کچھ نہیں جانتا۔ دوسرے لوگ جو کہا کرتے تھے وہی میں بھی کہتا تھا (اُس کے اِس جواب پر) اُس کو کہا جائے گا کہ تونے نہ تو خود جانا اور نہ (جان کر ایمان لانے والوں کی) تونے پیروی کی ،اور لوہے کے گرزوں سے اُس کو مارا جائے گا جس سے وہ اِس طرح چیخے گا کہ جن و انس کے علاوہ اُس کے آس پاس کی ہر چیز اُس کا چیخنا سنے گی۔