ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
کرے تب بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ : اگر مرد دُور ہونے کی وجہ سے مجلس نکاح میں خود حاضر نہیں ہوسکتا تو وہ کسی کو اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے، جو قبول کے وقت اِس طرح کہے میں نے اپنے مؤکل کی طرف سے قبول کیا یا میں نے اپنے مؤکل کے لیے قبول کیا۔ نکاح کے دونوں جانبوں کا ایک شخص ذمہ دار بن جائے : -1 دونوں کا ولی ہو، مثلاً ایک شخص اپنے ایک بیٹے کے بیٹے کا نکاح اپنے دوسرے بیٹے کی بیٹی کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں یوں کہہ کر کرسکتا ہے کہ میں نے اپنے فلاں پوتے کا نکاح اپنی فلاں پوتی سے کیا۔ -2 دونوں کا وکیل ہو، مثلاً ایک مرد اور ایک عورت دونوں نے زید کو اپنے نکاح کرنے کا وکیل بنادیا اور زید نے گواہوں کی موجودگی میں یوں کہا کہ میں نے اپنی فلاں مؤکلہ کا نکاح اپنے فلاں مؤکل سے کیا تو نکاح ہوگیا۔ -3 ایک جانب سے خود اصل ہو اور دُوسرے کا وکیل ہو، مثلاً زید ایک عورت خدیجہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ خدیجہ نے اپنا نکاح کرانے کے لیے زید کو وکیل بنادیا، زید اگر گواہوں کی موجودگی میں یوں کہے کہ میں نے اپنی مؤکلہ کے ساتھ نکاح کیا تو نکاح ہوگیا۔ -4 ایک جانب سے خود اصل ہو اور دوسرے کا ولی ہو، مثلاً زید اپنی نابالغ چچازاد بہن کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے اور زید اِس کا سب سے قریب ولی بھی ہو تو اُس کے گواہوں کے سامنے یہ کہنے سے کہ میں نے اپنی چچازاد بہن کے ساتھ نکاح کیا تو نکاح ہوگیا۔ -5 ایک جانب کا ولی ہو اور دوسری جانب کا وکیل ہو، مثلاً زید کی اپنی بیٹی ہو اور جس سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتا ہے اُس نے زید کو نکاح کا وکیل بنادیا تو گواہوں کی موجودگی میں زید کے یوں کہنے سے کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے فلاں مؤکل سے کیا، نکاح ہوجاتا ہے۔ (جاری ہے)