ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
کر یہی کچھ کر گزرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، اس لیے ملکی تاریخ میں چوتھی بار بے محل فوجی قوت کا مظاہرہ کرکے ملک میں منفی سیاسی رُجحانات کی ایسی راہ ہموار کردی گئی کہ اِس کے آگے بند باندھنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود غربت اور احساس ِمحرومی کا شکار ہے۔ مختلف مواقع پر ہونے والی فوجی کارروائیوں نے وہاں کے عوام کی سوچ پر منفی اثرات مرتب کررکھے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان پاکستان کا حساس صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدات کی حالت بھی انتہائی نازک ہے اس لیے ضروری تھا کہ آخری حد تک اس معاملہ کو سیاسی طور پر حل کیا جاتا۔ سردار اکبر بگتی دیگر سرداروں کی بہ نسبت لچکدار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اہم عہدے پر فائز رہے ہیں۔ کئی بار رُکن اسمبلی رہ چکے ہیں ،وزیر مملکت برائے دفاع، گورنر بلوچستان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی رہے ہیں۔ وہ باغی نہ تھے بلکہ ایک محب وطن پاکستان کے طور پر جانے جاتے تھے بلو چستان میں اُن کی سیاسی حیثیت کاکوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ایسی شخصیت کے خلاف اس نوعیت کی سنگین فوجی کارروائی پہلے سے موجود آزاد بلوچستان کی سوچ کو آگے بڑھاکر ملک کے لیے مزید خطرات کو جنم دے گی۔ فوجی ایکشن نے نہ صرف بوڑھے اکبر بگتی کی خود بخود گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کردیا بلکہ ملک میں ایک اور ''شہید بھٹو'' پیدا کرکے اِس کی کوکھ سے نا تھمنے والی تحریک کو جنم دے دیا۔ سیاست سے عاری فوجی قیادت سے ایسی ہی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی تاوقتیکہ ملکی قیادت ایسے محفوظ ہاتھوں میں آجائے جو سیاسی تدبر کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کو بھی بہرطور پیش ِنظر رکھتی ہو۔ ہر وہ فوجی کارروائی جس کے پیچھے سیاسی حکمت ِ عملی کار فرماہوتی ہے وہ عموماً اچھے اور دیرپا نتائج دیتی ہے جبکہ سیاسی حکمت ِعملی سے عاری فوجی کارروائی کے نتائج عارضی اور وقتی بلکہ بسا اَوقات تباہ کن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے عوام اور حکمران سب ہی کو عقل ِسلیم اور اپنی کوتاہیوں سے باز آکر راہِ راست کو اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین۔