ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
یرانیوں سے لیے ہیں، جبکہ یہ بات غلط ہے صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اسلام کے اپنے الگ ہی قانون ہیں۔ ہاں یہ بات ہوسکتی ہے کہ یہ سلسلہ چلا تھا انبیاء کرام سے اصل میں۔ کیونکہ یورپ میں مادی ترقی تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے شروع ہوئی ہے اور ان سے بہت پہلے تو فرعون موجود تھا، مصر ترقی کرتا بہت زیادہ۔ وہاں احرام مصر ہیں عمارتیں ہیں اور اس سے بھی پہلے قوم نمرود تھی وہ ترقی پر تھی۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دَور تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جد اعلیٰ ہیں اور یہ مصر کی نہر سویزجو ہے یہ بھی بہت پرانی ہے یہ بھی اُس وقت کی کھودی ہوئی ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ یہ انبیاء کرام بنی اسرائیل کے سیاسی نظام کو دُرست رکھتے تھے ۔تو سیاست انبیاء کرام کے ہاتھ میں رہی ،اس لحاظ سے سارے نبیوں کی تعلیم آپس میں پھر مل جاتی ہے،ایک ہو جاتی ہے۔ اور قانون کا منبع اور مأخذ جو ہے وہ انبیاء کرام بنتے ہیں یہ قومیں نہیں ہیں ہاں چھوٹے موٹے (شعبہ جاتی اور علاقائی) قوانین جو ہیں یہ بنائے جاسکتے ہیں مثلاً ٹریفک کے قوانین ہیں، سپاہی کا کھڑا ہونا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ چیزیں حسب ضرو رت بنائی جاسکتی ہیں۔ ضرورت ہو تو سپاہی کھڑا ہوجاتا ہے، ضرورت نہ رہے تو سپاہی بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ شہروں میں کھڑا ہوتا ہے دیہات میں نہیں کھڑا ہوتا۔ کسی قوم کو قوانین کا منبع نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ فلاں فلاں قوم ہے یا فلاں جگہ سے لیا ہے، بلکہ اِس کا منبع اصل میں انبیاء کرام ہی ہیں انہوں نے ہی یہ قانون وغیرہ سکھائے جیسے صنعت وغیرہ بھی انہوں ہی نے سکھائی۔ لوہے کی صنعت ہے لکڑی کا کاروبار ہے اُس سے کام لینا ہے، لکھنا ہے، حساب ہے۔ یہ ساری چیزیں انبیاء کرام کی سکھائی ہوئی ہیں، بتلائی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذریعہ بنایا ہے انسانوں کی انسانیت میں ترقی کا۔ تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے خندق کھودنے کا مشورہ دینے سے یہ بات نہیں نکالی جاسکتی ہے کہ اسلام نے ساری ترقی جو کی ہے وہ قیصر و کسریٰ سے لے کر کی ہے، یہ بات غلط ہے، یورپ سے یہ گھڑی ہوئی جھوٹی باتیں آتی ہیں اور لوگ متأثر ہوجاتے ہیں (ناواقفیت کی وجہ سے ) مگر حقیقت اس کے سواء ہے۔ یہ صحابہ کرام کا ذکر تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت میں اِن کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔اختتامی دُعا ………