ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
اور جب ہر مومن کو حضور اقدس ۖ سے محبت ہے تو آپ ۖ کے محبوب شہر یعنی مکہ معظمہ سے بھی ضرور محبت ہوگی ، تومکہ سے محبت دو پیغمبروں کی دعا کا اثر ہوا۔ یہ تو حج کی اورمقام کی دینی فضیلت تھی جو کہ اصلی فضیلت ہے اوربعض دینوی مصلحتیں بھی اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھی ہیں گو حج میں ان کی نیت نہ ہونی چاہیے مگر وہ ازخود حاصل ہو جاتی ہیں چنانچہ آگے دوحدیثوں میںاس طرف اشارہ ہے : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کی مصلحت قائم رہنے کا سبب قرار دیا۔ مصلحت عام لفظ ہے ، سو کعبہ کی دینی مصلحتیں تو ظاہر ہیں اور دینوی مصلحتیں بعضی یہ ہیں : اس کاجائے امن ہونا وہاں ہر سال مجمع ہونا، جس میں مالی ترقی اور قومی اتحاد بہت سہولت سے میسر ہو سکتا ہے ،اور اس کے بقاتک عالم باقی رہنا، حتی کہ کفار اِس کو منہدم کردیں گے، قریب ہی قیامت آجائے گی ، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ (بیان القرآن) اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے لوگوں کے آنے کی حکمت یہ ارشاد فرمائی ہے ، اپنے دینی ودنیوی فوائد کے لیے آموجود ہوں مثلاً آخرت کے منافع یہ ہیں ، حج وثواب و رضاء حق اور دُنیوی فوائد یہ ہیں قربانی کا گوشت کھانا، اور تجارت وغیرہ ۔ ابن ابی حاتم نے اس کو حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ (کذافی الروح بیان القرآن) اور حج کے رنگ کی ایک دوسری عبادت اور بھی ہے یعنی عمرہ جو سنت موکدہ ہے جس کی حقیقت حج ہی کے بعضے عاشقانہ افعال ہیں، اس لیے اس کا لقب حج اصغرہے۔ مگر یہ حج کے زمانے میں بھی ہوتا ہے جس سے دوعبادتیں ایک شان کی جمع ہو جاتی ہیں ، اوردوسرے زمانے میں بھی ہوتا ہے ، یہاں تک مضمون کا ایک سلسلہ تھا، آگے متفرق طورپر لکھا جاتا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور جب حج یا عمرہ کرنا ہوتو اس حج اور عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کے واسطے پورا پورا ادا کیا کرو کہ افعال و شرائط بھی سب بجالائو اور نیت بھی خالص ثواب کی ہو۔ حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''جس شخص کوکوئی ظاہری مجبوری یا ظالم بادشاہ یا کوئی معذور کردینے والی بیماری حج سے روکنے والی نہ ہوا اور وہ پھر بے حج کیے مرجائے، اس کو اختیار ہے خواہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے''، فرض حج نہ کرنے میں کتنی سخت دھمکی ہے۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ''جو شخص حج کا ارادہ کرے اس کو