ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
(حضور مقبول علیہ الصلٰوة والسلام ) کے علوم کی اشاعت اس شان سے کی کہ چار دانگ عالم میں اس ''شیخ ہندی'' کے نام کا غلغلہ بلند ہوا اورخلق خدا کے نقارہ سے ''شیخ العرب والعجم ''کا لقب عطا ہوا۔ شیخ الاسلام ایک معمولی غیر معروف طالب عالم ''حسین احمد ''سے بڑھ کر '' شیخ الاسلام '' اور ''شیخ العرب والعجم'' کیسے بنے ؟ آپ کی شخصیت سازی کے بنیادی عوامل کیا تھے؟ جب اِس موضوع پر غور کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ آپ کی حیات مقدسہ اُن اسباب وعوامل سے پوری طرح آراستہ تھی جو کسی بھی شخصیت کوبفضل ِخداوندی عزت ومرتبہ اورمقام ومنصب عطا کرنے میں سب سے زیادہ دخیل ہوتے ہیں۔ آپ کی شخصیت کو نکھارنے میں بتدریج درج ذیل عوامل نے بنیادی کردارادا کیا : (١) تعلیم (٢) تزکیہ (٣) علمی انہماک (٤) اُستاذکی خدمت (٥) ملّت کی فکر (٦) جذبۂ خدمت (٧) اخلا ق ِفاضلہ (١ ) تعلیم : آپ ١٣٠٩ھ میں نوعمری کے زمانہ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور درسِ نظامی کی مکمل تعلیم یہیں حاصل کی۔ یہاں ساڑھے سات سال آپ کا قیام رہا جس کے دوران ١٧فنون کی ٧٠ کتابیں گیارہ اساتذہ سے پڑھیں اوراکثر امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ۔ یہ پورا عرصہ تعلیمی محنت میں صرف ہوا، سوائے تعلیم ومطالعہ کے آپ کی اور کوئی مصروفیت نہیں تھی ۔امتحانات کے زمانہ میں پوری پوری رات جاگ کر کتابیں یاد کرنا آپ کا معمول تھا۔ الغرض طالب علمی کے زمانہ میں آپ نے وہ شاندار نمونہ پیش کیا کہ تمام اساتذہ کرام کے منظورِ نظربن گئے ، بالخصوص اُستاذالاساتذہ شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی رحمة اللہ علیہ کی انتہائی شفقتیں آپ سے وابستہ ہو گئیں ،اِس بنا ء پر فراغت کے بعد جب آپ اپنے والد محترم حضرت سیّد حبیب اللہ رحمة اللہ علیہ کے ہمراہ مدینہ منورہ ہجرت کی غرض سے دیوبند سے روانہ ہونے لگے تو ''شیخ الہند ''خود بنفس ِنفیس آپ کو چھوڑنے کے لیے اسٹیشن تک تشریف لائے، چلتے ہوئے فرمایا ''میاں حسین احمد جہاں بھی رہو پڑھانا مت چھوڑنا ، خواہ ایک دوہی طالب علم ہوں ''۔ آپ نے اپنے مشفق اُستاد کی اس نصیحت کا پاس ولحاظ رکھا اورآخری لمحات تک تدریسی مشغلہ جاری رہا۔