ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
اس صورت حال کا عاشقانہ ہونا اورفخرکے ساتھ اس کا ذکر فرمانا اس صورت کے پیاری ہونے کو بتلارہا ہے۔ یہ چند حدیثیں حج میں عاشقی کی شان ہونے کی تائید میں بطورنمونہ کے لکھ دی گئیں ، ورنہ حج کے سارے افعال کھلم کھلا اِسی عاشقانہ رنگ کے ہیں یعنی مزدلفہ عرفات کے پہاڑوں میںپھرنا ، لبیک کہنے میں چیخ وپکار کرنا، ننگے سر پھرنا، اپنی زندگی کو موت کی شکل بنالینا ، یعنی مردوں کالباس پہننا ، ناخن اوربالوں تک کا بھی نہ کٹوانا ، جوںتک کو نہ مارنا ، جس سے دیوانوں کی سی صورت ہو جاتی ہے، سرمنڈوانا ، کسی جانور کا شکار نہ کرنا، کسی خاص حد کے اندر درخت نہ کاٹنا، گھاس تک نہ توڑنا ، جس میں کوچۂ محبوب کا ادب بھی ہے ۔ یہ کام عاقلوں کے ہیں یا عاشقوں کے ؟ اوران میں بعض افعال جو عورتوں کے لیے نہیں ہیں، اس میں ایک خاص وجہ ہے یعنی پردہ کی مصلحت ، اور خانۂ کعبہ کے گردگھومنااور صفا ومروہ کے بیچ میں دوڑنا ،اورخاص نشانیوں پرکنکر پتھر مارنا، اورحجر اسود کو بوسہ دینا ، اورزار زار رونا، اورخاک آلودہ ہونا، دھوپ میں جلتے ہوئے عرفات میں حاضر ہونا، ان کے عاشقانہ ہونے کا ذکر اوپر حدیثوں میں آچکا ہے ،اور جس طرح حج میں عشق ومحبت کا رنگ ہے ، اس کے ادا ہونے کا جس مقام سے تعلق ہے یعنی مکہ معظمہ مع اپنے تعلقات کے اس میں بھی محبت کی شان رکھی گئی ہے جس سے حج کا وہ رنگ اور تیز ہو جائے چنانچہ سورۂ ابراہیم میں ہے : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی کہ میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب آباد کرتا ہوں ، آپ کچھ لوگوں کے دلوں کو اِن کی طرف مائل کردیجئے ۔ ( سورہ ابراہیم رکوع ٦ آیت : ٣٧ ) اِس دعا کا وہ اثر آنکھوں سے نظر آتاہے جس کو ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے : کوئی مومن ایسا نہیں جس کادل کعبہ کی محبت میں پھنسا ہوا نہ ہو، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں، کہ اگر ابراہیم علیہ السلام یہ کہہ دیتے کہ'' ہم لوگوں کے قلوب '' تو یہود و نصارٰی کی وہاں بھیڑ ہو جاتی لیکن انہوں نے اہل ایمان کو خاص کردیا، کچھ لوگوں کے قلوب کہہ دیا۔ ( درمنثور) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ہجرت کے وقت مکہ معظمہ کو خطاب کرکے فرمایا : تو کیسا ستھرا شہر ہے اور میرا کیسا محبوب ہے اور اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے جدا نہ کرتی تو میں اور جگہ جاکر نہ رہتا ''۔ (مشکوة شریف)