ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
فرمائی ہے یعنی ان سے غلط کام بدنیتی وغیرہ یہ خرابیاں دُور فرمائی ہیں ۔ان خرابیوں کے دُور کرنے کو اللہ نے اورجناب رسول اللہ ۖ نے جن الفاظ سے بتلایا ہے وہ یہ ہیں کہ اِعْمَلُُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کردیا یعنی یہ کہ تمہارے اُوپر میں نے اپنی رحمت کی نظر فرمادی، اپنی رحمت تمہارے شامل حال کردی ،ایمان اُتاردیا تمہارے دلوں میں۔ تو جب ایمان اُتر آئے تو پھر گناہ نہیں ہوتے ۔ قرآن پاک میں ہے : حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَ یَّنَہ فِیْ قُلُوْبِکُمْ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان محبوب بنادیا اوراس کو تمہارے دلوں میں زینت دے دی وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَوَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اور فسوق اورعصیان کو مکروہ بنادیا ، نافرمانی انھیں پسند ہی نہیں رہی، تو اس کو ان الفاظ سے ظاہر فرمایا گیا ۔دوسرے کلمات گویا جو استعمال میں آئے وہ یہ ہیں کہ اِعْمَلُُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا یعنی یہ کہ میں نے رحمت کی نظر فرمادی یعنی یہ کہ میں نے تمہارے دلوں میں ایمان اُتاردیا اور برائی برائی لگنے لگی تمہیں اور اچھائی اچھی لگنے لگی تمھیں ، پھر تم سے برے کام ہوں گے ہی نہیں ۔ اہلِ بدر اور حدیبیہ والوں کی فضیلت کی ایک اور مثال : حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک غلام حضرت حاطب کا رسول اللہ ۖ کے پاس آیا اوراس نے شکایتیں کیں اور ساتھ ساتھ یہ جملہ بھی کہا لَیَدْخُلَنَّ حَاطِب النَّارَ حاطب جو ہیں یہ آگ میں جائیں گے کیونکہ یہ یہ خراب عادتیں ہیں اِن کی، اُس کے ذہن میں کوئی بُرائی ہوگی اُس کو اب موقع مل گیا برائی ظاہر کرنے کا تو ان کلمات سے ظاہر کیا۔ تو جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کَذَبْتَ لَایَدْخُلُھَا یہ غلط کہتے ہو وہ نار میں جہنم میں نہیں جائیں گے فَاِنَّہ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَّالْحُدَیْبِیَّةَ کیونکہ انھوں نے بدر اورحدیبیہ میں شرکت کی ہے، تو بدر میں جہاد اورحدیبیہ میں بیعت ِ رضوان۔ اورقرآن پاک میں ہے لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ درخت کے نیچے جب وہ بیعت کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنی رضا مندی کا فیصلہ فرمادیا فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًاقَرِیْبًا o وَمَغَانِمَ کَثِیْرَةً ےَّأْخُذُ وْنَھَا آگے کے بارے میں بھی بہت کچھ بتلایا گیا سورہ انافتحنا میں ٢٦ ویں پارہ میں ان کی تعریف ہے اور شروع یہاں سے ہوئی ہے لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْن