ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
ِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۔ حافظ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ بیعت ِ رضوان والوں میںسے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا اور ایک آدھ آدمیوں کے نام ایسے آتے ہیں کہ جنھوں نے یہ بیعت نہیں کی چھپ گئے اُونٹ کی آڑ میں درخت کی آڑ میں کہیں اوربیٹھ کر چھپ گئے ،ایک آدھ آدمی منافقین میںایسے بھی ہیں ورنہ صحابہ کرام نے بیعت کی ہے ساتھ دیا ہے، کٹھن وقت تھا اور اُس وقت وہ پُر جوش تھے یہ صرف چودہ سو حضرات تھے بہت تھوڑی تعدادتھی، صرف ڈیڑھ ہزار اوردوسرا اُن کا اپنا علاقہ بھی نہیں تھا اور پھر جوش یہ تھا کہ لڑیں گے اوریہ خیال ہی نہیں تھا کہ ہم ہار بھی سکتے ہیں وہ جان دینے کے لیے تیار تھے ،تو بہت بڑی چیز ہے یہ کہ جناب رسول اللہ ۖ پراِس طرح کی قربانی کے لیے تیار تھے۔ صحابہ کرام کو آقا کی بے ادبی برداشت نہ تھی : ایک شخص آیا تھا کفارِ مکہ کی طرف سے اس حدیبیہ کے موقع پر اوراُس نے اجازت لی اہلِ مکہ سے کہ میں جائوں دیکھ کر آئوں ان لوگوں کو ،تو انہوں نے کہا کہ ہا ںچلیں جائیں آپ دیکھ کر آئیں اور ہمیں آپ پر اعتماد ہے آپ غلط بیانی نہیں کریں گے اورآپ کی سمجھ پر بھی اعتماد ہے ۔ وہ آئے آکر باتیں کرنے لگے، تو باتیں جب کرتے تھے تو رسول اللہ ۖ کی مبارک ڈاڑھی کو ہاتھ لگا کر عرض کرتے۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ جو تھے انہوں نے اس سے کہا اَخِّرْیَدَکَ عَنْ لِحْیَةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ یہ جو طریقہ ہے گفتگو کا، آپ یہاں نہ کریں ۔ بہت بڑے حضرات کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا جاسکتا، تو اپنا ہاتھ پیچھے رکھ ڈاڑھی سے ۔ اُس شخص کا صحابہ کرام کے بارے میں ابتدائی تاثیر : پھر وہ کہنے لگا کہ جناب میں آپ کے اِرد گرد جو لوگ دیکھ رہا ہوں کہ کوئی کہیں کا ہے کوئی کہیں کا ہے کوئی کہیں کا ہے۔اگر سب ایک جیسے ہوں ایک قبیلہ ہو ایک خاندان ہو کوئی ایک برادری ہویا پوری پوری برادریاں ہوں تو وہ تو لڑتے ہیں مقابلہ کرتے ہیں جمتے ہیں، آپ کے ساتھ تو ایک آدمی کہیں کا ہے ایک کہیں کا ہے ایک کہیں کا ہے تو خَلِیْقًا اَنْ یَّفِرُّوْا یہ بھاگ جائیں گے ذرا سی لڑائی ہوگی تو اِس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بہت سخت جملہ کہا اورپھر فرمایا اَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ۖ کیا ہم بھاگ جائیں گے رسول اللہ ۖ کو چھوڑ کر ۔