ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
(١) بے مثال محبوبیت : آپ کی زندگی میں دُنیا نے جس مقبولیت ومحبوبیت کا مشاہدہ کیا وہ تو ناقابل بیان ہے ہی ،لیکن آپ کے بعد بھی یہ محبوبیت مستقل برقرار ہے۔ آپ کے جن شاگردوںاورمتوسلین نے آپ سے اکتساب ِفیض کسی بھی درجہ میں کیا ہے، اُن کی نگاہوں میں پھر اور کوئی سمایا ہی نہیں ۔ آج بھی جب اُن کے سامنے آپ کا تذکرہ چھیڑاجاتا ہے تو عشق ومحبت کا پیمانہ لبریز ہو کر آنسوئوں کی لڑیوں کی شکل میں سامنے آجاتا ہے ۔ (٢) فیض ِعام : آپ کا علمی اوررُوحانی فیض جس قدر عام اور تام ہوا وہ بھی اظہر من الشمس ہے ۔ ہزاروں شاگردوں اورلاکھوں مریدوں کے ذریعہ چاردانگ عالم میں آپ کا فیض پھیلا ، تشنگان ِعلوم کو سیرابی ملی اورگم گشتہ راہوں کو معرفت ِخداوندی نصیب ہوئی ۔ اور آپ اپنے دور میں مرجع خاص وعام بن گئے ، اسی وجہ سے جب آپ کا ١٣٧٧ھ میں وصال ہوا تواُمت نے ایسا غم منایا جس کی مثال تاریخ میں خال خال ہی ملتی ہے۔آپ کی وفات پر جتنے مضامین لکھے گئے اور جذبات میں ڈوبی ہوئی جتنی نظمیں لکھی گئیں اورملک وبیرون ملک جتنی تعزیتی مجالس منعقد کی گئیں اُن کی نظیر قریبی زمانہ میں نہیں ملتی۔ (٣) اَبدی زندگی : اور سب سے بڑی نعمت آپ کو یہ نصیب ہوئی کہ آپ اپنے کارناموں اورشاندار تجدیدی اعمال صالحہ کی بدولت زندۂ جاوید بن گئے۔آج آپ اِس دُنیا میں نہیں ہیں لیکن شاگردوں ، خلفاء ، دینی اداروں، علمی حلقوں اورملی تنظیموں کی شکل میں آپ کے لیے بے حدوحساب صدقۂ جاریہ کا انتظام موجود ہے، انشاء اللہ تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ حضرت شیخ الاسلام نے اپنی کسر نفسی کی بناء پر تصنیف وتالیف کا مشغلہ بالقصد اختیار نہیں فرمایا۔ لیکن بایں ہمہ آپ نے اپنے متعلقین ومتوسلین کو خطوط کے جو جوابات تحریر فرمائے ہیں ،وہ بجائے خود تصنیف کا درجہ رکھتے ہیں ۔ آپ کے یہ مکتوبات اپنے دور کے سب سے مقبول مکاتیب میں شمار ہوئے جس میں تصوف وسلوک کے باریک حقائق بھی ہیں ، فقہ کے اہم مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے، علمی تحقیقات کا قیمتی ذخیرہ بھی موجود ہے، پھر