ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
دو قسم کے لوگوں کا جہاد عَنْ مُّعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہ قَالَ : '' اَلْغَزْوُ غَزْوَانِ فَاَمَّا مَنِ ابْتَغٰی وَجْہَ اللّٰہِ وَاَطَاعَ الْاَمِیْرَ وَاَنْفَقَ الْکَرِیْمَةَ وَیَاسَرَ الشَّرِیْکَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ فَاِنَّ نَوْمَہ وَنَبْھَہ اَجْر کُلُّہ ، وَاَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَّرِیَائً وَّسُمْعَةً وَّعَصَی الْاِمَامَ وَاَفْسَدَ فِی الْاَرْضِ فَاِنَّہ لَمْ یَرْجِعْ بِالْکَفَافِ'' (ابوداود شریف ج ١ ص ٣٤٠) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جہاد دوقسم (کے لوگوں) کا ہوتا ہے (ایک وہ شخص کہ) جس نے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی غرض سے جہاد میں شرکت کی، اپنے امیر کی اطاعت کی، اپنے پاک مال اور پاک جان کو صرف کیا، اپنے شریک ِکار سے اچھا معاملہ کیا، فتنہ و فساد سے بچتارہا تو اِس شخص کا تو سونا جاگنا سب کا سب باعث ِاجر و ثواب ہے، اور (دوسرا وہ شخص ہے کہ) جس نے فخر و غرور، ریا کاری اور ناموری و شہرت کی غرض سے جہاد میں شرکت کی، امیر کی نافرمانی کی، زمین میںفتنہ و فساد پھیلایا تو ایسا شخص تو برابر سرابر بھی نہیں لوٹے گا۔ ف : احادیث ِمبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد بہت بڑے اجر و ثواب والا عمل ہے لیکن یہ اجر و ثواب اسی صورت میں ملے گا جبکہ نیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اگر اس میں ریا کاری اور ناموری کی غرض شامل ہوگئی تو بجائے اجر و ثواب کے اُلٹا گناہ ہوگا۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں دوسرے شخص کے بارہ میں جو یہ فرمایا کہ ایسا شخص تو برابر سرابر بھی نہیں لوٹے گا اِس کے دو مطلب ہیں ایک تو یہ کہ یہ شخص بغیر کسی اجر و ثواب کے لوٹے گا اِسے اجر و ثواب نہیں ملے گا اگرچہ گناہ نہ ہو، دوسرا یہ کہ یہ شخص اِس طرح نہیں لوٹے گا کہ نہ ثواب ہو نہ گناہ ہو بلکہ گنہگار ہوکر لوٹے گا اور اِس کا گناہ اِس کے اجر و ثواب سے بھی زیادہ ہوگا۔