ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
(٤ ) اُستاذکی خدمت : ١٣٣٣ھ حضرت شیخ الاسلام کی زندگی میں انقلابی موڑ بن کر آیا ۔ اب تقدیر خداوندی آپ کو کندن بناکر پورے عالم میں چمکا نا چاہتی تھی ۔ اس سال آپ کے اُستاد گرامی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ اپنی شہرہ ٔ آفاق تحریک آزادی ''ریشمی رُومال تحریک '' کا منصوبہ لے کر حجاز مقدس میں تشریف لائے اور حکومت ترکیہ کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتیں فرمائیں ۔ لیکن ابھی کوئی حتمی صورت سامنے نہ آسکی تھی کہ شریف مکہ نے بغاوت کردی اور اُس نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے شیخ الہند کو گرفتار کروادیا۔ اِس نازک موڑ پر اس عظیم اُستاذ کے عظیم شاگرد نے جس بے مثال سعادت مندی کا مظاہرہ کیا وہ آب ِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ حضرت شیخ الہند اپنے رفقاء (مولانا عزیرگل صاحب ، حکیم نصرت حسین صاحب ، مولانا وحید احمد صاحب ) کے ساتھ گرفتار کیے گئے تھے۔ ان میں حضرت مدنی کا نا شامل نہیں تھا لیکن یہ سوچ کر کہ ایام اسارت میں استاذ معظم کی خدمت کون کرے گا؟ آپ نے مسجد نبوی کے اپنے حلقۂ درس کو چھوڑا، پورے خاندان کو خیر باد کہا اور اپنے بے شمار متعلقین کو چھوڑ کر خود کوشش کرکے اپنے کو بھی اُستاذ معظم کے ساتھ گرفتار کروادیا۔ یہ واقعہ دیکھنے میں تو بہت معمولی ہے لیکن غور کیا جائے تو یہی وہ عظیم جذبۂ ایثار و خدمت ہے جس نے شیخ الاسلام کو واقعی اوجِ ثریا جیسا کمال عطا کیا ہے ۔ ایسے نازک امتحان میں پورا اُترنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔ آپ نے مالٹا کے قید خانہ میں اپنے استاذ کی خدمت کرکے اپنے لیے وہ ازلی سعادتیں سمیٹی ہیں جن کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ جیل کی تنہائی میں آپ نے اُستاذ معظم کے ترجمۂ قرآن پاک کی تکمیل میں حصہ لینے کاشرف حاصل کیااورخود بھی قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل فرمائی ۔اور پھر یکسوئی میںاُستاذ کی معیت آپ کو اتنی اچھی لگنے لگی کہ باوجودیکہ دورِاسارت میں آپ کے خاندان کے چھ قریبی افراد بشمول والدین محترمین ایڈ ریا نوپل میں وفات پا گئے تھے مگر آپ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ جیل کی یکسوئی دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ یہاں سے نکلنے کی دُعا ہی نہ کی جائے ۔ الغرض مالٹا کی اسارت شیخ الاسلام کی حیات طیبہ میں ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔شیخ کامل اوراستاذ کامل کی اس تین سالہ معیت سے آپ نے رُوحانیت کے وہ جواہر آب دار سمیٹے ہیں جن کی قیمت لگانے سے دُنیا قاصر ہے۔