ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
(٥ ) مِلّت کی فکر : مالٹا سے رہائی کے بعد آپ مدینہ منورہ لوٹنا چاہتے تھے مگر اُستاذ محترم کے حکم کی تعمیل میں آپ نے ملت اسلامیہ ہند کی قیادت وسیادت کی وادی ٔخاردار میں قدم رکھا اورقوم وملت کی خیر خواہی اور خدمت ِ خلق کو اپنی زندگی کا مقصود بنالیا، پھر تو آپ ایسے مشغول ہوئے کہ دن ہو یا رات، آندھی ہویا طوفان ، بارشیں ہوں یا لُو کے تھپیڑے ، موافقت کے نعرے ہوں یا مخالفت کے طعنے ،اِن میں سے کوئی بھی چیز آپ کے عزم واستقلال میں رکاوٹ نہ بن سکی ۔ مالٹا سے رہائی کے بعد کم وبیش ٤٠سال تک ملّی قیادت کے اُفق پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکتے رہے ۔اس دور میںبار بار ظالم انگریز کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں قید زنداں کو برداشت کرنا پڑا۔ ١٣٦٠ھ میں آپ مسلمانان ِہند کی سب سے مؤقّرجماعت ''جمعیة علماء ہند'' کے صدر نشین منتخب ہوئے جبکہ ١٣٤٦ھ سے وفات تک آپ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی مسند صدارت پر فائز ہو کر علوم نبوت کی اشاعت وترویج میں مشغول رہے اورہزاروں شاگردوں کی جماعت تیار کی جنہوں نے ملک وبیرون ملک جا کر دین کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیا اوریہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ اس دور قیادت میں ایسے پُر خطر موڑ بھی آئے جب لوگ جذبات کے جنون میںاتنے آگے بڑھے کہ اپنے اس مخلص ومسیحا اورملت کے سچے خیر خواہ کی جان کے درپے ہو گئے۔ مگر ایسے ہولناک ماحول میں اس نواسۂ رسول نے گستاخوں سے عملی انتقام نہ لے کر طائف کی سنت کا زندہ نمونہ دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس مرد مجاہد کے ساتھ سید پور ، بھاگلپور ، جالندھر وغیرہ میں وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا کہ دنیا ئے انسانیت شرمسار ہو کر رہ گئی مگر یہ صبرواستقامت کا پیکر گستاخیوں کا جواب مسکراہٹوں سے دیتا رہا اورجس بات کو وہ حق سمجھتا تھا اُس پر پوری مضبوطی سے قائم رہا۔ تقسیم ہند کی تحریک میں شیخ الاسلام اور ان کے رفقاء نے جس عاقبت اندیشی،بے جگری اورخیرخواہی کا ثبوت دیا ہے اُس کے بیان کرنے کے لیے الفاظ عنقا ہیں۔ آج انہی کے خلوص اور اصابت رائے کا ثمرہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان آباد ہیں اورانہیں دستوری حقوق حاصل ہیں اوران کے شعائر قانونی اعتبار سے محفوظ ہیں۔ (٦ ) جذبۂ خدمت : آپ نے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت اورراحت رسانی کے لیے وقف کردیا تھا ۔ آپ کی تمام ترجدوجہد اور کاوشیں اِسی خدمت کے جذبہ سے انجام پاتی تھیں۔ انفرادی معاملات ہوں یا اجتماعی صورتیں ہر جگہ