ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے سنا ہے ، فرماتے تھے کہ اب طواف میں شانے ہلاتے ہوئے دوڑنا اور شانوں کوچادرسے باہر نکال لینا کس وجہ سے ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکہ میں قوت دے دی اورکفر کو اورکفروالوں کو مٹا دیا اوریہ فعل شروع ہوا تھا ان ہی کو اپنی قوت دکھلانے کے لیے جیسا کہ روایات میں آیا ہے ، اور باوجود اس کے اب مصلحت نہیں رہی مگر ہم اس فعل کو نہ چھوڑیں گے جس کو ہم رسول اللہ ۖکے وقت میں آپ کے اتباع اورحکم سے کرتے تھے کیونکہ رسول اللہ ۖ نے اِس پر حجة الوداع میں عمل فرمایا جب کہ مکہ میں ایک بھی کافر نہ تھا ، اگر حج میں عاشقی رنگ غالب نہ ہوتا تو جب عقلی ضرورت ختم ہو گئی تھی ، تو یہ فعل بھی موقوف کردیا جاتا ۔ عابس بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر حجراسود کی طرف آئے اوراس کو بوسہ دیا اورفرمایا ''جانتا ہوں ، تو پتھر ہے نہ کسی کو نفع پہنچا سکتاہے اورنہ نقصان ، اوراگر میں رسول اللہ ۖ کو نہ دیکھ لیتا کہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو میں تجھ کو کبھی بوسہ نہ دیتا '' ۔ (ابوداود شریف)محبوب کے علاقہ کی چیز کو چومنے کا سبب بجز عشق کے اورکون سی مصلحت ہو سکتی ہے ؟ اورحضرت عمر نے اپنے قول سے یہ بات ظاہر کردی کہ مسلمان حجر اسود کومعبود نہیں سمجھتے کیونکہ معبودتو وہی ہو سکتا ہے جو نفع و ضرر کا مالک ہو۔ حضر ت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے حجر اسود کی طرف رُخ کیا ، پھر اس پر اپنے دونوں لب مبارک رکھ کر اُس پر بڑی دیر تک روتے رہے، پھر جو نگاہ پھیری تو دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر بھی رو رہے ہیں ۔آپ ۖ نے فرمایا اے عمر ! اس مقام پر آنسو بہائے جاتے ہیں ۔ (ترغیب) محبوب کی نشانی کوپیار کرتے ہوئے رونا صرف عشق سے ہوسکتاہے، خوف وغیرہ سے نہیں ہوسکتا ، اور افعال عاشقانہ تو ارادہ سے بھی ہوسکتے ہیں مگر رونا بدون جوش کے نہیں ہوسکتا ۔ پس حج کا تعلق عشق سے اس حدیث سے اورزیادہ ثابت ہوتاہے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب عرفہ کا دن ہوتا ہے جس میں حاجی لوگ عرفات میں ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ان لوگوں پر فخر کے ساتھ فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو دیکھو کہ میرے پاس دُور درازراستہ سے اِس حالت میں آئے ہیں کہ پریشان حال ہیں اور غبار آلود بدن سے اور دھوپ میں چل رہے ہیں ، میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا۔ (ترغیب)