ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
کی پسند یہ تھی کہ آلِ اسماعیل علیہ السلام کا قبلہ اب ساری دُنیا کا قبلہ بنادیا جائے کیونکہ یہ حضرت ابراہیم حضرت نوح اور حضرت آدم علیہم السلام کا قبلہ تھا یہی وہ عظیم مقام تھا کہ جس کا طواف سب انبیاء کرام نے کیا، صاحب ِتوراة حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کیا۔ زمین کی پیدائش ہوئی تو یہ حصہ سب سے پہلے پیدا ہوا۔ غرض یہ وسط ِارض تھا اور خدا کا سب سے پہلا گھر۔ تفسیر ماجدی میں ص ٥٠ پر ہے کہ : ''اسمتھ اپنی تصنیف لیکچرز آن محمد اینڈ محمد ازم میں ص ١٦٦ پرلکھتے ہیں : بنائے کعبہ کا سلسلہ حسب ِروایات اسماعیل اور ابراہیم علیہما السلام تک پہنچتا ہے بلکہ شیث و آدم علیہما السلام تک اور اِسی کا نام بیت ایل خود اِس پر دلالت کرتا ہے کہ اسے ابتدائی شکل میں کسی ایسے ہی بزرگ قبیلہ نے تعمیر کیا ہے۔ سرولیم میور لائف آف محمد کے مقدمہ میں ص ١٠٢ و ص ١٠٣پر لکھتا ہے: مکہ کے مذہب کی تاریخ بہت ہی قدیم ماننی پڑتی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ ایک نامعلوم زمانہ سے ملک عرب کا مرکز چلا آتا ہے، جس مقام کا تقدس اتنے وسیع رقبہ میں مسلم ہو، اُس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اُس کی بنیاد قدیم ترین زمانہ سے چلی آتی ہے''۔ اب وقت آگیا تھا کہ بنائے آدم و ابراہیم علیھما السلام کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا جائے، چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم کے قلب ِاطہر نے مرادِ باری تعالیٰ کو قبول کرنا شروع کردیا اور جس طرح اگلی آیات میں ذکر ہے، آپ اس شوق میں بے چینی کے ساتھ آسمان کی طرف نظر اُٹھاکر دیکھا کرتے تھے حتی کہ یہ حکم نازل ہوا۔ اِن ہی آیات میں یہ ذکر بھی ہے کہ صحابۂ کرام کو خیال ہوا کہ ہماری اُن نمازوں کا کیا ہوگا جو پہلے بیت المقدس کی طرف پڑھی گئیں تو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْف رَّحِیْم (سورۂ بقرہ رکوع ١٧) ''اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہوجانے دے تمہارے ایمان کو یقینا اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا شفیق ہے بڑا مہربان ہے''۔