ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
تمہارے کام ، سلامت رہو ،ہم کو بے سمجھ لوگ نہیں چاہئیں ''۔ یہ حقیقت ہے کہ اچھائی اوربرائی برابر نہیں ہوتے۔ اس لیے برائی کے جواب میں برائی نہ کریں بلکہ بہتر اور اشرف انداز اختیار کرناچاہیے۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَة کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْم ۔ ( سورۂ حٰم سجدہ پ٢٤ ع١٩) ''نیکی اور بدی برابر نہیں، جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر بات ہو، ایک دم یہ ہوگا کہ جس سے تمہاری دشمنی ہوگی وہ گویا قرابت دار دوست بن جائے گا''۔ تبلیغ ہر مسلمان کا ہر موقع پر فرض ہے اس لیے جب کسی غیرمسلم سے تبلیغی گفتگو ہوتو نہایت نفیس وپُر مغز گفتگو ہونی چاہیے ۔ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۔ ( سورۂ نحل پ١٤ ع٢٢ ) ''اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور بہتر طرح نصیحت سناکر بلائو'' ۔ تبلیغ کے جواب میں اگر وہ سخت انداز اختیار کریں تو مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ اس کو جواب میں اسی طرح کی بدخوئی ،در شتی یا سب وشتم کا طریقہ اختیار کرے۔آقائے نامدار ۖ نے ایک دن فرمایا وہ شخص برا ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے ،کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایسا کون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ فرمایا کہ جو دوسروں کے ماں باپ کو گالی دیں گے،دوسرے اِس کے ماں باپ کو گالی دیں گے تو گویا اس نے خود ہی اپنے ماں باپ کو گالی دی کیونکہ اس نے یہ خیال نہ کیا کہ بات کہاں تک پہنچے گی۔ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِعِلْمٍ ( سورۂ اَنعام پ ٧ ع١٩ ) ''اورتم لوگ ان کو برا نہ کہو جن کی یہ خدا کے سِوا پرستش کرتے ہیں کہ وہ بے ادبی سے بے سمجھے اللہ کو برا کہنے لگیں'' ۔ آقائے نامدار ۖ کے ان ہی جامع اور کریمانہ اخلاق کی طرف قرآن حکیم نے نشان دہی فرمائی ہے