ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
تھا وہ مشہور روایات کے مطابق تیرہ دن مسلسل جاری رہا تھا جس کے بعد آپ ۖ کا وصالِ مبارک ہوگیا تھا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے )۔اس سے جہلاء نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ آپ ۖ کے ان تیرہ دنوں میں مرض کی شدت اور تیزی کی وجہ سے یہ مہینہ سب کے حق میں شدید ، بھاری یا تیز ہوگیا ہو۔ اگر یہی بات ہے تو یہ سراسر جہالت اور توہم پرستی کا شاخسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اورایسا عقیدہ رکھنا سخت گناہ ہے۔ (٢)ماہِ صفر اور ابتدائی تیرہ دن : بعض جاہل لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس مہینے کے ابتدائی تیرہ روز خاص طورپر بہت زیادہ سخت اور تیز یا بھاری ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کی پہلی تاریخ سے لے کر تیرہ تاریخ تک کے دنوں کو خاص طور پر منحوس سمجھتے ہیں او ربعض جگہ اس مہینے کی تیرہ تاریخ کو چنے اُبال کر یا چُوری بناکر تقسیم کرتے ہیں تاکہ بلائیں ٹل جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوںکے ابتدائی تیرہ دنوں سے متعلق اس غلط خیال کی وجہ سے ہی اس مہینہ کو تیرہ تیزی کا مہینہ کہا جاتا ہو۔یہ بھی شریعت پر زیادتی ہے ، حضور ۖ نے ایسی تمام چیزوں کی نفی فرمادی (جیسا کہ آگے آرہا ہے )۔ (٣) ماہِ صفر اورجنّات کا آسمانوں سے نزول : بعض علاقوں میں مشہور ہے کہ اس مہینہ میں لنگڑے ،لُولے اور اندھے جنات آسمان سے اُترتے ہیں اور چلنے والوں کو کہتے ہیں کہ بسم اللہ کرکے قدم رکھو کہیں جنّات کو تکلیف نہ ہو۔ بعض لوگ اس مہینہ میں صندوقوں، پیٹیوں اور دَرودِیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں تاکہ جنّات بھاگ جائیں۔ (٤) ماہِ صفر اورقرآن خوانی : ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے کی وجہ سے بعض گھرانوں میںاجتماعی قرآن خوانی کا اس لیے اہتمام کرایا جاتا ہے تاکہ اس مہینہ کی بلائوں اورآفتوں سے حفاظت رہے۔ اول تو مروجہ طریقہ پر اجتماعی قرآن خوانی ہی ایک رسم ِمحض بن کر رہ گئی ہے اور اس میں کئی خرابیاں جمع ہو گئی ہیں ، دوسرے مذکورہ بالانظریہ کی بنیاد پر قرآن خوانی کرنا اپنی ذات میں بھی جائز نہیں کیونکہ مذکورہ نظریہ ہی شرعاً باطل ہے کیونکہ شریعت نے واضح کر دیا کہ اس مہینہ میں نہ کوئی نحوست