ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
ہے جو زیادہ ادب والا ہو، اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا باخبر ہے''۔ تمسخر کرنے سے لوگوں کی نظر میں وقار باقی نہیں رہتا اور اس سے قسم قسم کے نقصانات ہوتے ہیں کیونکہ جس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے اُس کی دل شکنی ہوتی ہے وہ بدلہ لینے کے لیے جواباً ہر طرح ذلیل کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس بری عادت سے وہ انسان لوگوں کی نظر میں اتنا گرجاتا ہے کہ کوئی اچھی بات ہی کیوں نہ کہے وہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہر شخص کوچاہیے کہ اس بری عادت سے اجتناب کرے اور اللہ تعالیٰ نے جو اخلاقِ حمیدہ تعلیم فرمائے ہیں انہیں اختیار کرے۔ آیت مبارکہ میں ایک دوسرے پر عیب لگانے اور کسی کی چڑ ڈالنے سے بھی منع فرمادیا کیونکہ اِن حرکات سے فتنے اُبھرتے ہیں اور ایسے شخص سے لوگ خود متنفر ہوجاتے ہیں ۔اگر ان حرکات سے اجتناب نہ کیا جائے تو نفرت وعداوت کی خلیج روزبروز وسیع تر ہوتی جاتی ہے ،قلوب میںاس قدر بُعد ہو جاتاہے کہ صلح و اختلاف کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی ۔آیت مبارکہ میں خدا وند ِقدوس نے اس قسم کی باتوں سے منع فرمایا ۔ مال اور جان سے کسی کے کام آنا کسی کسی وقت ہوتا ہے البتہ خوش کلامی کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس سلسلہ میں بھی ارشاد ہوا : وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ( سورۂ بقرہ پ ١ ع ١٠ ) ''اور سب لوگوں سے اچھی طرح بات کیاکرو'' ۔ خدا کے پسندیدہ بندے کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہیںدیتے بلکہ وَ اِذَا مَرُّوْا بِا لَّلغْوِمَرُّوْاکِرَاماً۔ ( سورۂ فرقان پ ١٩ ع٤) ''اورجب کھیل مذاق کی باتوں سے گزرتے ہیں توبزرگانہ طورپر نکل جاتے ہیں''۔ وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰماً ( سورۂ فرقان پ ١٩ ع٤) ''اور جب اُن سے بے سمجھ لوگ بات کرنے (ہی) لگیں تووہ کہہ دیتے ہیں ''صاحب! سلامت '' وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰم عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ۔( سورۂ قصص پ٢٠ ع٩ ) ''اورجب نکمی باتیں سنیں تواُن سے کنارہ کریں اورکہہ دیں ہمیںہمارے کام اور تم کو