ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
قادیانیوںکو دعوتِ اسلام ( جناب عتیق الرحمن صاحب ) ایک دفعہ میں مسجد گیا تووہاں پر مختلف کتابچے پڑے ہوئے تھے۔میں نے ان میں سے ایک اُٹھا یا اور اُس کی ورق گردانی شروع کردی ۔ کچھ ہی اوراق پلٹنے کے بعد مجھے یہ لکھا ہواملا کہ ''ہم لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی انسان بھی دائمی عذاب میں مبتلا نہیں ہوگا نہ مومن نہ کافر کیونکہ قرانِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیٍٔ میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہو اہے...... ہم کیونکر مان سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت آخر دوزخیوں کو ڈھانپ نہیں لے گی...... خدا تعالیٰ کی محبت بھری آواز کبھی بھی ان کو مخاطب کرکے یہ نہیں کہے گی کہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ آئو میرے بندوں میں داخل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جائو''۔ آگے چلنے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کتابچہ مرزائیوں کے دوسرے خلیفہ کا تھا اوراس کا نام تھا ''احمدیت کا پیغام''۔ کچھ دن گزرنے کے بعد میری دکان پر ایک مرزائی آیا میںنے اسے ان کے خلیفہ ثانی کا نجات سے متعلقہ یہ عقیدہ سنایا اور اس سے پوچھا کہ تمہارا خلیفہ صاحب کے اس عقیدہ کے متعلق کیا خیال ہے ؟وہ مجھے کہنے لگا کہ آپ سمجھ دار آدمی ہیں آپ خود سوچیں کہ ایک آدمی گناہ تو کرے پچاس ساٹھ سال لیکن اُسے سزاملے اتنی لمبی جو کبھی ختم ہونے میں ہی نہ آئے ،یہ کہاں کا انصاف ہے؟ میں نے کہا، یعنی آپ کا بھی یہی عقیدہ ہوا۔ وہ کہنے لگا بالکل! اس بات میں بھلا کیا شبہہ ہے ؟ اچھا اگر ہم غلط ہیں تو آپ ہی ہمیں سمجھا دیں ہم کیسے غلط ہیں؟ میں نے اس سے گزارش کی اب میں آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔ آپ براہِ مہربانی مسلمان ہو جائیں۔ اس نے میری دعوت کو بے تکا سا جانا ، اُسے ہماری سابقہ گفتگو اور اس دعوتِ اسلام میں کوئی ربط سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ جو کچھ اس کے چہرہ سے عیاں تھا وہی کچھ آخر اس کی زبان پہ بھی آگیا۔ وہ کہنے لگا مجھے آپ کی