ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
عِلَّت قرار دیتے تھے اوراسی کی طرف منسوب کرتے تھے ،حالانکہ درحقیقت یہ سب کام اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قدرت وارادہ سے ہوتا ہے ،اسی لیے صحیح احادیث میں زمانہ کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے کیونکہ زمانہ درحقیقت اللہ ہی کی ایک قدرت کا مظہر ہے ۔ اس لیے زمانہ کو برا کہنے کا نتیجہ درحقیقت اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے ۔ (معارف القرآن ج٧ بتغیر) ۔ ایک حدیث ِقدسی میں ہے : عن النبی ۖ یقول اللّٰہ عزوجل یؤذ ینی ابن آدم یسب الدّ ھر وانا الدّھر بیدی الامر اقلب اللّیل والنھار ۔ (بخاری فی التفسیر واللفظ لہ، مسلم، ابوداود، موطأ امام مالک ، مشکٰوة ص١٣) ''نبی کریم ۖ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بنی آدم مجھے ایذاء دیتا ہے (یعنی میری شان کے خلاف بات کہتا ہے اوروہ اِس طرح )کہ وہ زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں(یعنی زمانہ میرے تابع اورماتحت ہے)میرے قبضۂ قدرت میں تمام حالات اورزمانے ہیں ،میں ہی رات ودن کو پلٹتا (اورکم زیادہ کرتا) ہوں''۔ فائدہ : ایک حدیث میں ہے کہ زمانہ کو برا مت کہو ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رات اور دن ہوں، ان کو نیا پرانا کرتاہوں (بیہقی)۔اورایک حدیث میں ہے کہ میرے بندے نے لاعلمی میں مجھے بُرا بھلا کہا ،وہ کہتا ہے ''ہائے زمانہ '' جب کہ زمانہ میں ہوں (حاکم )۔ زمانہ بذاتِ خود کوئی چیز نہیں وہ تو اللہ کے حکم سے وجود میں آیا ہے اوراُسی کے حکم سے چلتا ہے، نحوست اگر ہے تو انسان کی بداعمالیوں یا اپنے خیالات کی بنیاد پرہے۔ نحوست دراصل ''بداعمالیوں ''میں ہے : زمانۂ جاہلیت میںلوگ بعض دنوں، بعض تاریخوں اور بعض جانوروں یا انسانوں اور جگہوں میںنحوست سمجھتے تھے خاص کر عورت گھوڑے اورمکان میں نحوست کا زیادہ اعتقاد رکھتے تھے، شریعت نے ان تما م چیزوں کی تردید فرمادی۔ نحوست کا غلط تصورپہلی اُمتوں میں بھی پایاجاتارہا ہے بلکہ (نعوذ باللہ تعالیٰ )انبیاء علیہم السلام کی طرف ان کے مخالفین ومعاندین نے نحوست کا الزام عائد کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اِس کی صاف نفی فرمادی اورواضح