ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
محمد ۖ ۔ (مسند بزار) '' رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو خود بُری فال (بدشگونی )لے یا جس کے لیے بُری فال لی جائے ، یا جو خود کہانت کرائے یا جس کے لیے کہانت کرائی جائے، یا جو خود جادو کرے یا جس کے لیے جادو کیا جائے ، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اُس کی باتوں کی تصدیق کی تواس نے محمد ۖ پر نازل شدہ چیز (قرآن وشریعت ) کا (ایک طرح سے )کفر کیا''۔ فائدہ : مذکورہ احادیث میں بیان کی ہوئی چیزوں کی مزید وضاحت انشاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ تمام خیالات باطل ہیں بلکہ نقل کے خلاف ہونے کے علاوہ عقل کے بھی خلاف ہیں۔ صفر کو منحوس یا بُرا کہنے کی نسبت اللہ کی طرف لوٹتی ہے : ماہِ صفر کو منحوس اور بُرا سمجھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی زمانہ بذاتِ خود بُرا یامنحوس ہے یعنی ماہِ صفر کی طرف برائی اورنحوست کو منسوب کرنا دراصل زمانہ کی طرف برائی کو منسوب کرنا ہے۔ پس جس وقت بندہ عبادت میں مشغول ہوتا ہے وہ زمانہ اس کے حق میں مبارک ہوتا ہے اور جس وقت بندہ گناہوں میں مصروف ہوتا ہے وہ زمانہ اُس کے حق میں منحوس ہوتا ہے۔اسلام کے اصولوں اوررسول اللہ ۖ کی احادیث سے ثابت ہے کہ کوئی زمانہ یا دن وتاریخ اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے، اور زمانہ توا للہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اُس کی طرف نحوست یا برائی کو منسوب کرنا گناہ ہے۔ وَقَالُوْا مَاھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُھْلِکُنَا اِلَّا الدَّھْرُ ۔ (سورہ جاثیہ آیت ٢٤) '' اور (یہ کفار) کہتے ہیں اور کچھ نہیں بس یہی ہے ہمارا جینا دنیا کا ، ہم مرتے ہیںاورجیتے ہیں، اور ہم جو مرتے ہیں تو زمانہ (کی وجہ ) سے مرتے ہیں ''۔ تشریح : کفار نے یہ بات کہی تھی کہ ہماری موت وحیات کا اللہ کے حکم اورمشیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ طبعی اسباب کے تابع ہے ۔ کفارومشرکین زمانہ کی گردش ہی کو ساری کائنات اوران کے سارے حالات کی